مراق مرزا
خانہ جنگی کی ابتدا سے قبل وہ ایک ملک تھا، جہاں زندگی کے تمام آثار، تمام علامتیں موجود تھیں۔ خوشیاں تھیں، مسکراہٹیں تھیں اور انسانی آنکھوں میں خوشگوار مستقبل کے خواب تھے مگر اب منظر بدل چکا ہے۔ اب اس ملک کے زیادہ تر شہر اور صوبے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جگہ جگہ ٹوٹی پھوٹی انسانوں سے خالی ویران عمارتیں، اداس، مایوس غمگین چہرے، سنسان سڑکوں سے گزرتی چند ایک گاڑیاں، ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول، زندگی کی ایسی سسکتی بلکتی صورتیں ہیں جنہیں دیکھ کر انسانی فکر وشعور چند لمحوں کے لیے منجمد ہو جاتا ہے۔ یہ دل دوز تصویر آج کے سیریا یعنی شام کی ہے جہاں بھوک ہے، افلاس ہے اور انسان کی بنیادی ضرورتوں کا شدیدفقدان ہے، جہاں گزشتہ دس برسوں سے جاری خانہ جنگی بڑی طاقتوں کی پراکسی وار میں بدل چکی ہے۔ ہر روز انسانیت مررہی ہے، انسان مررہا ہے اور عالمی سیاست جیت رہی ہے۔ دنیا کی کچھ بڑی طاقتوں کا مفاد جیت رہا ہے۔ جنگ میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے، تاہم ان کے علاج ومعالجہ کی سہولتیں بے حد کم ہیں۔ شدید غیریقینی حالات میں لوگ جینے پر مجبورہیں۔ نہ جانے کب اور کہاں آسمان سے موت کی بارش ہوجائے۔ ہر زندہ آنکھ میں اب ایسی ہی دہشت اور وحشت کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ملک شام اسی زمین کا ایک خطہ یا حصہ ہے جس پر دنیا کے دیگر تمام ممالک آباد ہیں مگر افسوس کہ عالمی برادری شام کی بربادی کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے کارآمد کوشش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا جا رہا ہے۔
شام کی سرزمین کو میدان جنگ میں تبدیل ہوئے 10 سال گزر چکے ہیں۔ اس خونیں لڑائی میں اب تک 5 لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک کی قریب آدھی آبادی نے آس پاس کے ملکوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ایک ملک بتدریج مٹتاجارہاہے اور چند بڑی طاقتیں اس کی زمین پر اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ اب ذرا ایک نظر بیک اسٹوری پر ڈالتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ لڑائی شروع کیوں ہوئی اوراس کے پیچھے اہم وجہ کیا ہے۔ عوامی بغاوت شروع ہونے سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ اس ملک میں بہت زیادہ بے روزگاری تھی۔ اس کے علاوہ بدعنوانی اپنے عروج پر تھی۔ سماجی و سیاسی آزادی کا فقدان تھا۔ حق اور انصاف کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو حکومت کے ذریعہ دبا دیا جاتا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ صدر بشارالاسد کے تاناشاہی رویے کے خلاف لوگوں میں ناراضگی بڑھتی جا رہی تھی۔ بشارالاسد نے 2000 میں اپنے والد حافظ الاسد کی جگہ لی تھی گویا حکومت کی باگ ڈور انہیں وراثت میں ملی تھی۔ اسی دوران کئی عرب ملکوں میں حکمرانوں کے خلاف شروع ہوئی بغاوت سے تحریک لے کر مارچ 2011 میں لوگوں نے جنوبی شام کے شہردرعا میں جمہوریت کی حمایت میں احتجاج شروع کر دیا۔ اسد کی حکومت نے اس احتجاج کو پوری طاقت سے دبانے کی کوشش کی مگر احتجاجیوں کو کچلا نہیں جا سکا۔ اس واقعے کے بعد احتجاج کی لہر بتدریج پورے ملک میں پھیل گئی اور لوگوں نے اسد سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ وقت کے ساتھ بغاوت کی آندھی تیز ہوتی گئی، باغیوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔ اسد نے بغاوت کو ملک سے غداری قرار دیا۔ اسے دشمن ملکوں کی سازش بتایا۔ اس طرح سیریا میں سول وار کا آغاز ہوا۔
2012 آتے آتے شام بری طرح خانہ جنگی کی گرفت میں آگیا۔ سیکڑوں باغی گروہوں نے خود کو متحد کرکے حکومت کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور سیریا کے متعدد صوبوں پر قبضہ جما لیا۔ خانہ جنگی کے اسی موڑ پر اس جنگ میں دھیرے دھیرے کچھ بڑی طاقتیں شامل ہوگئیں۔ روس، امریکہ، ایران اور سعودی عرب اس لڑائی میں اپنے اپنے طریقے سے کود پڑے۔ ایک طرف روس اور ایران نے کھل کر صدر اسد کی حمایت کردی اور مالی و فوجی امداد بھی مہیا کرنا شروع کر دیا تو دوسری جانب سعودی عرب اور امریکہ باغیوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور اس طرح اس جنگ کی شدت میں مزیداضافہ ہوگیا۔ اسی دوران اس میں کچھ فرقہ واریت کا رنگ بھی بھرا گیا۔ ایک میڈیا رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ ایران، عراق، لبنان، افغانستان اوریمن سے ہزاروں کی تعداد میں شیعہ مجاہدین بھی شام آگئے ہیں تاکہ وہ اپنے مقدس مذہبی مقامات کی حفاظت کر سکیں۔
2015 میں روس کی مدد سے باغیوں کے قبضے والے کئی علاقوں میں اسد کی فوج نے بم باری کی۔ اس فوجی کارروائی میں سیکڑوں باغیوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں عام شہری بھی مارے گئے لیکن کہتے ہیں، میدان جنگ میں لاشیں نہیں گنی جاتیں۔ لڑنے والے کی نگاہ صرف اور صرف اپنی جیت پر ہوتی ہے۔ ایک علاقے کوچھوڑ کر باغیوں کے قبضے والے تقریباً سبھی علاقوں کو شامی افواج نے دوبارہ قبضے میں لے لیا ہے مگر جنگ ہنوز جاری ہے اور یہ کب تک جاری رہے گی، کہا نہیں جاسکتا، کیونکہ اس لڑائی میں اب ترکی شامل ہو چکا ہے۔ شام کے آسمان سے اب بھی رک رک کر موت برس رہی ہے اور زمین انسانی خون سے نہارہی ہے۔ بوڑھے، بچے، عورتیں اور نوجوان روز ہی اس خونیں جنگ میں مارے جارہے ہیں اور دنیا اس ’کھیل‘ کو بالی ووڈ کی کسی وار فلم کی طرح دیکھ رہی ہے۔ اس سے قبل بھی دنیا نے یمن اور عراق کی تاراجی کا تماشا اسی طرح دیکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسانیت سیاست کے ہاتھوں مغلوب ہو چکی ہے یا اس کا وجود اب باقی نہیں رہا؟ اگر ایسا ہے تو انسانی حقوق اور انسانیت کی حفاظت کے لیے جو ادارے بنے ہوئے ہیں، ان کی ضرورت کیا ہے؟ اتنے سنگین مسئلے پر دنیا خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب عالمی سیاست کے کچھ مخصوص اصول وضوابط میں پوشیدہ ہیں۔ عالمی سیاست کے کچھ اپنے قاعدے ہیں، اپنے قوانین ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں اور اپنی ترجیحات ہیں اور ہر ملک اپنی ہی ترجیحات ومفادات کو اوّلیت دیتا ہے۔ ماضی کے اوراق پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ گزرے ہوئے زمانے میں جو بھی خونیں جنگیں ہوئی ہیں، اسی بنیاد پر واقع ہوئی ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے پیچھے بھی چند بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات ہی سبب رہے ہیں۔ شام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ امریکہ، روس، ترکی اور ایران کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ کوئی سیریا کو جنگی اسلحہ جات مہیا کر کے کاروبار کر رہا ہے تو کوئی باغیوں کی پشت پناہی کر کے اس ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں جلتے جھلستے دیکھنا چاہتا ہے۔ وضاحت کی ضرورت نہیں کہ کھل کر بشار کی حمایت کر کے ایران پورے مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی کو مضبوط ثابت کرنا چاہتا ہے تو دوسری جانب ترکی بھی اسلامی ممالک اور چند عالمی طاقتوں کے سامنے اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کر رہاہے جبکہ اس کی اندرونی وجہیں اور بھی ہوسکتی ہیں۔ ہر ملک کے سامنے اس کے اپنے مفادات ہیں، الگ الگ وجہیں ہیں مگر خون تو عام انسان کا بہہ رہاہے۔
جو ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا ہے اس کے لیے ترقی کے سارے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ وہاں عوام دھیرے دھیرے غربت کے غارمیں سمانے لگتے ہیں۔ بے روزگاری فاقہ کشی کو جنم دیتی ہے اور پیٹ کی آگ انسان سے اس کا فکر و شعور چھین لیتی ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ جب آدمی آدمی کو مارکر کھانے لگتا ہے۔ انسان اور حیوان کے بیچ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ شام کے حالات شاید کچھ اسی طرح کے خطرات کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اسی لیے اقوام متحدہ نے بھی کہا ہے کہ اس وقت سیریا کو بنیادی ضرورتوں کی چیزیں پہنچانا از حد ضروری ہے، کیونکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ خانہ جنگی سے لے کر جنگ تک، 10سال کی مدت میں یہ ملک آج ایک ایسے حالات سے گزر رہا ہے کہ یہاں نہ امن ہے، نہ روٹی۔ انسان مشکل سے مشکل حالات سے گزر سکتا ہے لیکن یہ دنیا جب اسے روٹی سے محروم کردیتی ہے تو اس کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے، نہ ملک۔ بھوک انقلاب کو جنم دیتی ہے اور بھوک ہی کی وجہ سے زندہ رہنے کی لڑائی شروع ہوتی ہے اور اس لڑائی میں جنگی ہتھیاروں کی جیت نہیں ہوتی بلکہ بھوکے پیاسے انسانوں کی جیت ہوتی ہے۔ گاندھی اور نلسن میڈیلا کی جیت ہوتی ہے۔ جارج واشنگٹن کی جیت ہوتی ہے۔ شام کے حالات دنیا سے امن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ روٹی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
(مضمون نگار فلم رائٹر اور ڈائرکٹر ہیں)
[email protected]
خانہ جنگی سے پراکسی وارتک شام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS