نئے حالات اگر مثبت سوچ سے پیدا ہوئے ہوں تو وہ امید افزا ہوتے ہیں جیسے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے نئے حالات امید افزا ہیں۔ دوسری مدت کار میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا انداز حکمرانی بدلا ہوا ہے اور اس بدلاؤ میں سب کا ساتھ، سب کاوشواس کی سوچ نظر آرہی ہے۔ رمضان کے شروع ہونے پر یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کو مبارکباد دینے کے ساتھ بجا طور پر کورونا سے بچاؤ کے لیے احتیاط کرتے ہوئے ماہ مقدس کو منانے کی اپیل کی تھی۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ نے یہ کہا تھا کہ ماہ رمضان میں باہمی محبت اور بھائی چارے کے جذبے کو استحکام ملتا ہے۔ پورے رمضان ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ ماحول بگڑنے نہ پائے۔ اس بار ان میں تبدیلی انتظامیہ کو ان کی اس ہدایت سے بھی نظر آتی ہے کہ گینگسٹر اور زمین مافیا کے خلاف کارروائی کی آڑ میں غریبوں کی جھونپڑی، گھر یا دکانوں پر بلڈوزر چلانے کی کارروائی برداشت نہیں کی جائے گی۔ یوپی کے وزیراعلیٰ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ انتظامیہ کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی مذہبی جلوس کو نکالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ عیدالفطر اور اکشے ترتیا کے ایک ہی دن منائے جانے کا امکان ہے، چنانچہ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس کے پیش نظر پولیس سے زیادہ مستعد رہنے کے لیے کہا ہے۔ ان کے انہی اقدامات کی وجہ سے ابھی تک ماہ رمضان پرامن طریقے سے گزرا ہے اور یہ امید کی جاتی ہے کہ عید کے موقع پر بھی امن و امان قائم رہے گا۔
ملک کے سیاسی حالات کو مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سیکولرزم کا مطلب ایک پارٹی کو اچھوت بنا دینا نہیں ہے۔ مسئلوں کے حل کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد ہندوستانی شہری کی حیثیت سے اور دستور ہند کے مطابق ہے، یہ کسی سیاسی پارٹی یا کسی مذہب کے لوگوں کے خلاف نہیں ہے مگر ہوتا یہی رہا ہے کہ ان کی جدوجہد کو نام نہاد سیکولر پارٹیاں بی جے پی کے خلاف جدوجہد بنا دیتی ہیں تاکہ اس کا فائدہ انہیں مل سکے اور فائدہ ملتا بھی رہا ہے لیکن ان پارٹیوں نے مسلمانوں کو حالات کے شکنجے سے نکالنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔مسلمانوں کے مصیبت میں پڑنے پر ان پارٹیوں کے لیڈران بیان اس طرح دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا نام کہیں نہ آئے مگر مورد الزام وہی ٹھہریں۔ ہر الیکشن کے وقت یہ لیڈران سیکولرزم کی دہائی دے کر مسلمانوں سے ووٹ مانگتے ہیں مگر مسلمانوں کو یہ کہنا چاہیے کہ سیکولرزم کو بچانے کی ذمہ داری انہی کی نہیں ہے، یہ کیسا سیکولرزم ہے جس کا خیال الیکشن کے وقت ہی آتا ہے، کام کرتے وقت نہیں آتا۔ سچر کمیٹی سے یہ بات سامنے آگئی تھی کہ مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی حالت بدتر ہے۔ مسلمانوں کے حالات بدلنے میں سیکولر پارٹیوں نے کیا رول ادا کیا، انہیں یہ بتانا چاہیے، کیونکہ بظاہر اس رپورٹ سے یہی معلوم ہو سکا کہ آزادی کے بعد کے 58 سال میں مسلمانوں کی حالت کیا سے کیا ہو گئی ہے، ورنہ مسلمانوں کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا، بہلانے کی باتیں کی جاتی رہیں۔ ان باتوں سے برادران وطن کوشاید یہ غلط فہمی ہوگئی کہ سیکولر پارٹیوںکو صرف مسلمانوں کا ہی خیال ہے، اس سے مسلمانوں کا سماجی نقصان ہوا۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی طرف سے مسلمانوں کو بی جے پی کے خلاف ظاہر کرنے پر مسلمانوں کا سیاسی نقصان ہوا۔ ملک کے بدلتے سیاسی حالات میں خود مسلمانوں نے بھی حکمت سے کام نہیں لیا جبکہ یہ کہا گیا ہے کہ ’حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے‘ ۔ مسلمان اگر چاہتے تو دلتوں اور سکھوںسے وہ سیکھ سکتے تھے کہ اپنے تشخص کو قائم رکھتے ہوئے مسئلے حل کیسے کرائے جاتے ہیں۔ مسلم لیڈروں کی غیردور اندیش سیاست کی وجہ سے مسلمانوں کی وہ امیج ختم ہو گئی جو 2014 تک تھی کہ وہ جس پارٹی کو ووٹ دیں گے وہی پارٹی جیتے گی لیکن ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں رواں سال میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں مسلمان یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ کسی پارٹی کے دشمن نہیں۔ جو پارٹی ان کے جائز مفاد کا خیال رکھے گی ، وہ اسے ہی ووٹ دیں گے۔ انہیں نہ مصنوعی سیکولرزم سے مطلب ہے، نہ نام نہاد مذہب پرستی سے، انہیں جائز مفاد کے حصول سے مطلب ہے اور یوگی آدتیہ ناتھ جو روپ اب دکھا رہے ہیں، مسلمانوں سے جس نرم لہجے میں باتیں کر رہے ہیں، ریاست میں نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں، وہ قابل تعریف اور امید افزا ہے۔ کاش! یہ سب وہ پہلے کرتے، کاش! وہ ایسا ہی آگے بھی کرتے رہیں۔ وہ ایک ریاست کے وزیراعلیٰ سے پہلے یوگی ہیں اور اپنے قول و عمل سے مسلمانوں کے لیے بھی یوگی ہی بنے رہیں تاکہ مسلمان آسانی سے ’نام نہاد سیکولرزم‘ کی سیاست سے نکل سکیں، کوئی نام نہاد سیکولر لیڈر انہیں بی جے پی یا کسی پارٹی کے نام سے ڈرا نہ پائے، اپنے مفاد کے لیے ان کا استعمال کر نہ پائے!
[email protected]
امید افزا ہے یوگی کا بدلا ہوا روپ !
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS