ملکی معیشت کا ایماندارانہ تجزیہ ہولناک

بے روزگار نوجوانو ں کو نفرت کی افیم پلا کر ملک کو برباد کیا جا رہا ہے

0

عبیداللّٰہ ناصر

ہندوستانی معیشت کی صحت کو لے کر ایک ہی دن میں دو سب سے بڑے ذمہ داروں کے متضاد بیان اخبارات میں شائع ہوئے۔ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ ہندوستان تیزی سے ایک مضبوط معیشت کی جانب بڑھ رہا ہے، دوسری جانب ریزرو بینک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستانی معیشت کی صحت سدھرنے میں ابھی 15سال لگیںگے۔ ملک کے جو حالات ہیں اور عوام جو اپنی روز مرہ کی زندگی میں جھیل رہے ہیں، اس کو دیکھا جائے تو وزیراعظم کا بیان ان کا یہ ایک اور جملہ لگتا ہے۔ ہوش ربا گرانی، بے انتہا بے روزگاری اسے تو ہم آپ سبھی محسوس کر ہی رہے ہیں، ایسے میں اگر کوئی سبز باغ دکھانے کی کوشش کرے تو اس کی ذہنی نوعیت پر شک ہونا لازمی ہے۔سبھی ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، آٹا، چاول، دالیں، خوردنی تیل، رسوئی گیس، ڈیزل، پٹرول، دوائیں کون سی ایسی چیز ہے جس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نہ ہو رہا ہو۔ روزگار کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں دو کروڑ دس لاکھ جاب گھٹے ہیں اور اس سے بدتر حالت یہ ہے کہ 45کروڑ نوجوانوں نے روزگار ملنے کی امید ہی ترک کر دی ہے۔ سوچئے کہ ان نوجوانوں کی ذہنی حالت کیا ہوگی، وہ کس قدر مایوس ہو چکے ہوں گے۔ کتنے نوجوانوں نے ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے خود کشی کر لی اور ان میں سے کتنوں نے سماج دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا ہوگا۔ ان نوجوانوں کے کندھوں پر ملک کی تعمیر کا بوجھ ہے، جب کہ کندھے ہی ٹوٹ چکے ہوں گے تو یہ ملک کی کیا تعمیر کریں گے۔ ہاں ان کا من مانا استعمال ضرور کیا جا سکتا اور آج یہ سب ہمارے سامنے ہے، یہ جو مذہبی جلوسوں میں تلوار رقص کرتے ہیں، فرقہ وارانہ تشدد آمیز نعرے لگاتے ہیں، مار کاٹ فتنہ فساد کر رہے ہیں، یہ وہی بے روزگار مایوس نوجوان ہیں جن کو جان بوجھ کر ایک سازش اور ایک غلط مقصد کے لیے بے روزگار رکھا جا رہا ہے اوراپنی سیاست کی بھٹی کا ایندھن بنایا جا رہا ہے۔
جو حالات ہیں، ان میں یہ یقینی ہے کہ ضروری اشیا خاص کر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ابھی اور اضافہ ہوگا۔ اس سال آوارہ جانوروں سے پریشان کسانوں نے گیہوں کم بویا، اس کے بجائے سرسوں اور ایسی فصلوں کو زیادہ بویا جو جانور نہیں چرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گیہوں کی پیداوار کم ہوئی موسم کی مار کی وجہ سے گیہوں کا دانہ بھی عام طور سے پتلا ہوا، سرکاری نرخ پر ہی پرائیویٹ کمپنیوں نے خریداری کی تو سرکاری خریداری کم ہوئی، اسٹاک کنٹرول کا قانون ختم ہوجانے سے پرائیویٹ کمپنیاں من مانا اسٹاک رکھ سکیںگی جبکہ حکومت نے مفت غلہ تقسیم کر کے اپنا اسٹاک کافی کم کر دیا ہے، خریداری بھی کم ہوئی ہے یعنی بڑی ہوشیاری سے غذائی خود کفالت نجی ہاتھوں کو منتقل کی جا رہی ہے۔ اگلے چند برسوں میں ہی یہی کمپنیاں آٹا، دال، چاول کا من مانا بھاؤ طے کریں گی اور ہم آپ اسی بھاؤ پر مگر خوبصورت پیکنگ میں لینے کو مجبور بھی ہوں گے اور خوش بھی ہوں گے جیسے آج بوتل کا پانی پی کر خوش ہوتے ہیں، شان سمجھتے ہیں۔
خوردنی تیل کا معاملہ بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ سرسوں کی اچھی اور زیادہ پیداوار کے باوجود سرسوں کے تیل کے دام کیوں نہیں گرے، یہ سوال اپنی جگہ، مگر آگے کیا ہوگا؟ انڈونیشیا نے پام آئل کی سپلائی روک دی ہے، روس یوکرین جنگ کی وجہ سے سورج مکھی کے تیل کی سپلائی متاثر ہو رہی یعنی آٹا، دال چاول، رسوئی گیس، مرچ مصالحہ کے ساتھ ساتھ خوردنی تیل بھی مہنگا ہونے کے پورے امکان ہیں۔
ریزرو بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا سے معیشت کی جو تباہی ہوئی ہے، اس کی بھر پائی کرنے میں کم سے کم 15سال لگ جائیں گے۔ ریزرو بینک نے اپنی رپورٹ میں کورونا سے معیشت کو ہوئے نقصان کا ذکر کیا ہے جو نصف سچ ہے، مکمل سچ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی معیشت کا بھٹہ نوٹ بندی سے بٹھا دیا گیا تھا، اس کے بعد بنا مکمل تیاری کے بنا سوچے سمجھے جی ایس ٹی لاگو کر دینے سے معیشت کا جو نقصان ہوا ہے، اس پر کورونا کی تباہی کوڑھ میں کھاج ثابت ضرور ہوئی لیکن کورونا ہی ہندوستانی معیشت کی تباہی کا واحد ذمہ دار نہیں ہے، یہ بات نہ ریزرو بینک تسلیم کرے گا، نہ حکومت تسلیم کرے گی اور نہ ہی بھکت لیکن حقیقت حقیقت ہی ہوتی ہے۔آج ہندوستانی معیشت کی حالت یہ ہے کہ اس پر135 لاکھ کروڑ کا قرض ہے جو2014میں محض 54 لاکھ کروڑ تھا۔ موجودہ قرض ہماری مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی ) کا تقریباً اسّی فیصد ہے، سوچئے اتنی بڑی رقم کا سود ہی ہماری معیشت پر کتنا بڑا بوجھ ہوگا۔ اس کے علاوہ آزادی کے بعد سے پہلی بار ریزرو بینک سے ایک لاکھ 46ہزار کروڑ روپے جو اس کا ایمرجنسی فنڈ تھا وہ بھی لے لیا گے، یہ وہ فنڈ ہے جو سابقہ حکومتوں نے چین اور پاکستان سے ہوئی جنگوں میں بھی نہیں لیا تھا، یہ سب پیسہ کہاں گیا؟ نہ کوئی یہ سوال پوچھتا ہے، نہ چینلوں پر اس پر کوئی مباحثہ ہوتا ہے۔آج بجلی کو لے کر ہا ہا کار مچا ہوا ہے، بجلی گھروں میں کوئلہ نہیں ہے، کول انڈیا کنگال ہے جبکہ اڈانی کے پاس کوئلہ کے بھنڈار بھرے پڑے ہیں۔ اس سے پہلے بھی کبھی کسی نے سنا تھا کہ ملک میں تقریباً سات سو ٹرینوں کو روک دیا گیا ہے تاکہ ریلوے کوئلہ کی دھلائی کرسکے۔ سرکار کے پاس کوئلہ نہیں اور ایک نجی کمپنی کے پاس کوئلہ کا بھنڈار ہے۔
یہ درست ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت مشکلات سے دو چار ہوئی ہے اور سبھی ملکوں پر اس کا اثر پڑا ہے، ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے لیکن ہمیں اپنے اندرونی معاشی مینجمنٹ کو بھی دیکھنا ہوگا، مرکزاور ریاستی حکومتیں جس بے دردی سے غیر پیداواری مدوں میں رقم خرچ کر رہی ہیں، چاہے پبلسٹی پر بے تحاشہ رقم خرچ کرنا ہو، چاہے فری راشن تقسیم کرنا ہو اور چاہے آستھا کے نام پر غیر آئینی مدوں پر رقم خرچ کرنا ہو، جس بے دردی اور غیر ذمہ داری سے پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ایک میٹنگ میں کچھ سینئر افسروں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے وزیراعظم سے براہ راست کہا کہ جس طرح فضول خرچی ہورہی ہے، فری راشن وغیرہ تقسیم کیا جا رہا ہے، وہ نہ روکا گیا تو ہندوستان کے سری لنکا بننے میں زیادہ دن نہیں لگیںگے۔ ظاہر ہے ان افسروں کی ان باتوں کا سرکار پر کوئی اثر نہیں ہونا تھا اور نہ ہی ہوا، پھر بھی ان افسروں نے اپنا فرض منصبی بھی ادا کیا اور فرض کفایہ بھی، جس کے لیے ان کی تعریف کی جانی چاہیے۔
ایک طرف یہ حالات ہے، دوسری طرف مسلم دشمنی کی افیم پلا کر عوام کو تلخ حقائق سے بے خبر ہی نہیں رکھا جا رہا ہے بلکہ لفاظی جھوٹے پروپیگنڈے، میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جارہی نفرت سے انہیں متشدد اور نفرتی بنایا جا رہا ہے، ادھر جان بوجھ کر ملک کی معیشت کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے ملک کا ایک کارپوریٹ گھرانہ دنیا کے پانچ امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ بار بار پانچ ٹریلین معیشت کا خواب دکھایا جا رہا ہے لیکن کسی کونے سے یہ آواز نہیں اٹھ رہی ہے کہ جب صنعتی شرح نمو ابھی بھی منفی ہے، بے روزگاری گزشتہ پچاس سال کا ریکارڈ توڑے ہوئے ہے، نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور پھر کورونا کی وجہ سے تیس کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے جا چکے ہیں، سرکاری خرچ چلانے کے لیے پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کو مٹی کے مول بیچا جا رہا ہے، بینکوں کا ناقابل واپسی قرض بڑھتا جا رہا ہے، بڑے بڑے صنعتی اور کارپوریٹ گھرانوں کی ٹیکس میں چھوٹ دی جا رہی ہے جس کی بھرپائی پٹرول اور ڈیزل کے داموں میں اضافہ کرکے کی جاتی ہے۔ ملک میں سماجی حالات کی وجہ سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری قریب قریب ٹھپ ہے بلکہ کئی کمپنیاں یہاں سے اپنا کا رو بار سمیٹ رہی ہیں۔ ممتاز صنعت کار محترمہ کرن مجمدار شا بہت پہلے ان حا لات کے خلاف آگاہی دے چکی تھیں مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی اور کم و بیش اب بھی کسی جانب سے اصلاح کی امید نہیں دکھائی دیتی، ایسا لگتا ہے جیسے جان بوجھ کر ملک کو ایک بہت بڑی معاشی اور سماجی تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ان حالات پر فوری توجہ ضروری ہے، ورنہ سری لنکا جیسی حالت سے ہم بہت دور نہیں ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS