مرکزی حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ جموں و کشمیر کے حالات پہلے سے بہتر ہوئے ہیں۔ اس سال جون میں خود وزیرداخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ کو یہ بتایا تھا کہ 2019 کے مقابلے 2020 میں دہشت گردی میں 59 فیصدکی کمی آئی ہے۔ اسی طرح 2020 کے مقابلے جون 2021 تک دہشت گردی 32 فیصد اور کم ہو گئی ہے۔ پھر دہشت گردی میں اچانک اس قدر اضافہ کیوں ہو گیا، ایسا کیوں ہونے لگا کہ عام لوگوں کو دہشت گرد نشانہ بنانے لگے اور ایسے لوگ بھی نشانہ بننے لگے جو عام لوگوں میں مقبول تھے۔ مثلاً: جموں و کشمیر کے مشہور فارماسسٹ ماکھن لال بندرو۔ پچھلے 40 برس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو یہ یقین تھا کہ ماکھن لال بندرو اصلی اور سستی دوا ہی دیں گے اور بندرو کو یقین یہ تھا کہ جموں و کشمیر میں ان کے یا ان کے اہل خانہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے مگر 5 اکتوبر، 2021 کو دیگر 4 لوگوں کے ساتھ ماکھن لال بندرو کا قتل کرکے ان کے یقین کا بھی قتل کر دیا گیا۔ حالات کی اچانک تبدیلی کا اندازہ کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس، وجے کمار کے حوالے سے آنے والی اس اطلاع سے ہوتا ہے کہ پچھلے دو ہفتے میں 11 انکاؤنٹرس ہوئے ہیں ، ان میں 17 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے میں کامیابی ملی ہے مگر اس کامیابی کے حصول کے لیے جوانوں کو بھی قربانی دینی پڑی ہے۔ حال ہی میں دو جونیئر کمیشنڈ آفیسرس سمیت 9 جوان شہید ہو گئے تھے۔ حالات اس حد تک خراب ہوگئے کہ وزیرداخلہ امت شاہ کو خود جموں و کشمیر جانا پڑا ۔ ان کے اس دورے کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ 2019 میں آرٹیکل 370کے ختم کیے جانے، ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم اور اسے مرکز کے زیر انتظام لیے جانے کے بعد سے یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔
وزیرداخلہ نے اپنے سہ روزہ دورے کے پہلے دن آج شری نگر میں سیکورٹی عہدیداروں کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کی۔ یہ میٹنگ دوپہر ساڑھے بارہ بجے سے شام ساڑھے چار بجے تک یعنی چار گھنٹے چلی۔ رپورٹ کے مطابق، وزیر داخلہ نے سیکورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کو مل کر کام کرنے کی ہدایت دی ہے اور یہ کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آخری لڑائی لڑیں لیکن شاہ کے اس بیان سے یہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے کہ سیکورٹی فورسز طاقت کے زور پر امن قائم کریں گی بلکہ اس کا مطلب یہ نکالا جانا چاہیے کہ جموں و کشمیر کے جو لوگ پرامن زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ وہ لوگ جو جموں و کشمیر کا امن غارت کرنا چاہتے ہیں، ان کی خیر نہیں۔ ان سے سختی سے نمٹا جائے گا، کیونکہ شاہ مثبت تبدیلی کو خاک میں ملنے دینا نہیں چاہتے۔ اس سلسلے میںان کا کہنا ہے کہ ’ڈھائی سال پہلے جس کشمیر سے پتھراؤ، تشدد، دہشت گردی کی خبریں آتی تھیں، آج اسی کشمیر میں نوجوان ترقی، روزگار، پڑھائی کی بات کر رہا ہے۔ کتنی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اس تبدیلی کی ہوا کو کوئی نہیں روک سکتا۔‘
بالکل یہ تبدیلی نہیں رکنی چاہیے، جموں و کشمیر کے امن پسند لوگ ہی نہیں، ہر ہندوستانی یہی چاہتا ہے کہ مثبت تبدیلی کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ ہم پھر سے یہ کہنے کی پوزیشن میں نہ آجائیں کہ جموں و کشمیر جنت نشان ہے مگر ان باتوں کے علاوہ اہمیت کی حامل یہ بات بھی ہے کہ دہشت گردی میں اچانک اضافہ کیوں ہوا؟ کیا اس کی وجہ افغانستان کے حالات کی تبدیلی ہے؟ اگر وجہ یہی ہے کہ پڑوسی ملک نے بدلتے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے تب بھی حالات سے نمٹنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا حالات کی تبدیلی کے لیے ہمارے یہاں بھی کچھ چوک ہوئی ہے؟ کیونکہ ایک طرف تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے، نوجوان خود کو بدلنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر میں خط افلاس سے نیچے رہنے والوں کی تعداد 10.35 فیصد ہے۔ اکتوبر-دسمبر 2020 تک جموں و کشمیر میں 17.8 فیصد لوگ بے روزگار تھے؟ سوال یہ ہے کہ جب بے روزگاری ہوگی، خط افلاس کے نیچے لوگ رہیں گے، پھر وہ اپنا اور اپنوں کا بھلا کیسے کر پائیں گے اور یہ صورت حال اس وقت ہے جب میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک نے کھل کر جموں و کشمیر میں بدعنوانی کے بارے میں کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں 15 فیصد تک رشوت لی جاتی ہے۔ جب وہ جموں و کشمیر کے گورنر تھے تو انہیں دو فائلوں پر دستخط کرنے کے عوض 150-150 کروڑ روپے کی پیش کش کی گئی تھی مگر یہ پیش کش انہوں نے ٹھکرا دی تھی۔ بعد میں وزیراعظم نریندر مودی سے انہوں نے یہ بات بتائی تو وزیراعظم نے کہا کہ آپ نے ٹھیک کیا، اس لیے یہ یقین مرکزی حکومت، وزیرداخلہ امت شاہ اور جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا پررکھا جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف آخری جنگ لڑنے کے لیے وہ بدعنوانی کے خاتمے پر پوری توجہ دیں گے، کیونکہ اس کے خاتمے کے بغیر تبدیلی کی ہوا عام لوگوں کو محسوس کرانا مشکل ہوگا اور کسی جگہ کے حالات کی تبدیلی میں عام لوگوں کا بڑا رول ہوتا ہے، اس سے کون انکار کر سکتا ہے!
[email protected]
وزیر داخلہ کا دورۂ جموں و کشمیر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS