رسول اکرم رحمت عالم ﷺ

0

ڈاکٹرحافظؔ کرناٹکی،شکاری پورشیموگہ

یہ ایک انمٹ حقیقت ہے کہ حضور اکرمؐ کی سیرت مبارکہ دنیا کے ہر مسلمان کے لیے اسوۂ حسنہ ہے۔ اور اس کا مطالعہ اور اس کے مطابق زندگی گزارنا ہر مسلمان کے لیے ضروری بلکہ لازم ہے۔ کیوں کہ دنیا و آخرت کی کامیابی کا دارو مدار اسی پر ہے۔
ہم یہاں پر کچھ ایسے واقعات کا ذکر کریں گے جن سے معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے نبیؐ کے اخلاق و عادات کتنے بلند تھے۔ ان میں عفو و درگزر کا کتنا عظیم الشان مادہ تھا۔ رسول اکرمؐ اپنے جانی دشمنوں، اسلام کے بدترین مخالفوں اور اپنے خون کے پیاسوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھتے تھے، ملاحظہ فرمائے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ آپؐ کی شخصیت مثالی تھی، ہے اور قیامت تک رہے گی۔ اس کے باوجود ہر دور میں بدبختوں نے آپؐ کی شان میں گستاخیاں کیں۔ کفار مکہ آپؐ کو امین، صادق کے لقب سے یاد کرتے تھے، اس کے باوجود آپؐ کی مخالفت کرتے تھے۔ در اصل یہ حق و باطل کے درمیان کی تفریق ہے جو قدرت کا قانون ہے۔ حق کے خلاف اگر باطل کی صف بندی نہیں ہوگی تو حق کی چمک اور قوّت کا احساس نہیں ہوگا۔ دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ آپؐ نے باطل کے پرستاروں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا، اور ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جو ہر وقت آپؐ کو تکلیف پہونچانے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص رسول اکرمؐ کے خلاف طنز کے تیر برسارہا تھا۔ آپؐ کے ہمراہ آپؐ کے خاص دوست حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کچھ دیر تک خاموش رہے مگر پھر ان سے برداشت نہیں ہوا۔ اور اس کو ترکی بہ ترکی جواب دیا، آپؐ حضرت ابوبکرؓ کی اس حرکت سے ناخوش ہوئے اور اس مقام سے اٹھ کر چل دیے۔بعد میں آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا؛ جب تک تم خاموش تھے تمہاری جانب سے ایک فرشتہ تمہارا دفاع کرتا رہا، البتہ جب تم نے جواب دینا شروع کیا تو شیطان اس میں شریک ہو گیا اور جس مقام پر شیطان ہو میں وہاں کیسے موجود رہتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے آپؐ سے دریافت کیاکہ یوم احد سے بھی کوئی سخت ترین اور مشکل ترین دن آپؐ پر گزرا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، تمہارے اہل قبیلہ نے مجھے بہت اذیت دی ہے، بدترین دن یوم عقبہ تھا جب میں نے عبد یا لیل ابن عبدکلال سے ملاقات کی اور میری مراد بر نہیں آئی، میں غم اور حزن میں ڈوبا ہوا واپس لوٹا اور ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر میں نے راحت کی سانس لی۔ جب میں نے آسمان کی طرف نظر کی تو میں نے دیکھا کہ بادل کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ فگن تھا۔ اسی بادل میں مجھے جبرئیل نظر آئے، انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا لوگوں نے جو آپ سے کہا اللہ نے اسے سنا اور ان کا برتاؤ بھی دیکھا اللہ نے پہاڑوں کے فرشتوں کو آپؐ کی خدمت میں حاضر کیا، آپؐ ان لوگوں کے ساتھ جو کرنا چاہیں وہ آپؐ کی تعمیل کریں گے۔ پہاڑوں کے فرشتوں نے مجھے سلام کیا اور کہا اے محمدؐ آپؐ کی جو خواہش ہو حکم فرمائیں اور اگر آپؐ چاہیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو ان لوگوں پر گرادوں گا۔ میں نے جواب دیا نہیں۔ بلکہ مجھے توقع ہے کہ اللہ ان کی آئندہ نسلوں میں ایسے افراد پیدا کرے گا جو صرف اللہ واحد کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔یہ واقعہ حضورؐ کے سفر طائف کا ہے۔ حضورؐ وہاں یعنی طائف میں دس دنوں تک مقیم رہے۔ اور دین کی دعوت و تبلیغ میں کوششیں کرتے رہے لیکن ان لوگوں پر کچھ اثر نہیں ہوا۔ طائف والوں کا مجمع اکٹھا ہوا اور وہ آپؐ پر آوازیں کستے رہے، مذاق اڑاتے رہے، اس سے بھی تسلّی نہیں ہوئی تو آپؐ پر پتھر برسانے شروع کردئے۔ آپؐ کے پیروں سے خون بہنے لگا۔ آپؐ کے رفیق زید ابن حارثؓ کا سر لہو لہان ہوگیا۔(سیرت ابن ہشام)یہاں پر ایک نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خدا جب خود قادر مطلق اور مالک حقیقی ہے تو اس نے اپنے محبوب پر کافروں کے برسائے گئے پتھروں کا جواب خود کیوں نہیں دے دیا۔ اس کے لیے جبرئیل کو اور پھر پہاڑوں کے فرشتوں کو آپؐ کے پاس کیوں بھیجا۔ شاید یہ اس بات کی وضاحت کے لیے کہ آپؐ واقعی رحمت للعالمینؐ ہیں۔حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم چوں کہ سراپا رحمت تھے اس لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ رحم و کرم اور عفوو درگزر کا کوئی موقع گنوائیں۔ جس طرح ہم اور آپ اپنے دشمنوں کو نیچا دکھانے یا اسے زیر کرنے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ شدّت سے ہمارے نبیؐ دشمنوں کو معاف کر دینے کے مواقع تلاش کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبیؐ نے فرمایا کہ جنگ کی حالت میں بھی بچوں کو، عورتوں کو، بوڑھوں کو، بیماروں کو قتل نہ کیا جائے اور انہیں تکلیف نہ پہونچائی جائے۔ ان لوگوں پر بھی حملہ نہ کیا جائے جو تلوار نہ اٹھائے۔ ان پر بھی حملہ نہ کیا جائے جو اپنا ہتھیار جھکالے، ان پر بھی حملہ نہ کیا جائے جو کلمہ پڑھ لے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کو امن و امان کا مذہب کہا جاتا ہے، حکم تو یہ بھی ہے کہ اگر تم پر کوئی ظلم کرے اور تم بدلہ لینے کی قوّت رکھتے ہو تو زیادہ بہتریہ ہے کہ تم اس کو معاف کردو۔ اگر آج بھی ہم اپنے آپ کو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطابق ڈھال لیں تو ساری دنیا کی محبت کا مرکز ہم ہی ہوں گے۔ اللہ ہمیں نیک بنائے اور نیکی کی توفیق عطافرمائے۔ آمین ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS