ڈاکٹر ایم عارف_ بتیا _ بہار
سوال پردے اور حجاب کا نہیں_سوال تعلیم کا ہے کہ کرونا کے نام پر بند اسکول،کالج اور تعلیمی ادارے کیا کھلے کہ حجاب کے نام پر تعلیمی ادارےبند ہونے شروع ہوگئے_ہمارے ملک کے تعلیم حاصل کرنے والے طلباوطالبات کہاں جارہے ہیں_؟ اپنی زندگی کےلئے کیا کررہے ہیں ؟،جو نوجوان مذہب اور دھرم نہیں جانتے وہ مذہب اور دھرم کے لئے بےدھرم ہوتے جارہے ہیں کیوں؟
میں حیران ہوں کہ ان طالب علموں کو کیا کرنا چاہئے ؟ مگروہ کیا کر رہے ہیں_؟ وہ نہ کالج میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور نہ ہی دھرم کے پرچار بلکہ دھرم اور سیاست کو ملاکر حجاب کے نام پر بے حجاب،نقاب کے نام پر بے نقاب اور پردے کے نام پر بے پردہ ہوتے جارہے ہیں_کیا اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں حجاب لگا کر آنا اور تعلیم حاصل کرنا کوئی نئی بات ہے _؟ کیا لڑکیاں آ زادی کے بعد آ زادی کے ساتھ پہلی بار کالج میں حجاب اور نقاب پہن کر آئیں ہیں ؟ کیا جب سے کرناٹک میں کالج، اور یونیورسٹی قائم ہوا ہے اس وقت سے اب تک کوئی لڑکی نقاب اور حجاب پہن کر کلاس نہیں کی ہے_؟ کیا یہ نئ بات ہے یا یونیفارم کے نام پر نئ بات پیدا کرنے کی کوشش_؟
عہ لیکن ریا میں لپٹی وفا
آنکھ سے چھپ سکتی نہیں
یہ کالج میں کالج انتظامیہ اور طالبات کا معاملہ ہے _کسی سیا سی پارٹی کے جھنڈے کا نہیں_؟ لیکن کرناٹک کے کالج میں زعفرانی دوپٹہ پہنے نوجوان تعلیم کی جگہ جے شری رام کے نعرے کے ساتھ کہاں سے آ گئے؟اس گروپ کو بھگوا یونیفارم کس نے دیا_؟کیا یہ نوجوان طالب علم روزانہ اسی یو نیفارم میں کالج آ تے تھے_؟
سوال اس بات کا ہونا چاہیے – کیونکہ یہ نیا تماشہ اور نیا ڈرامہ ہے_ حجاب نہیں_ باحجاب کو بے حجاب کرنے والے اس ڈرامہ کا کردار کون ہے_ ؟ کالج انتظامیہ کےذمہ داری کو اپنے ہاتھ میں لینے والا کون ہے؟لیکن ہم ساز کچھ اور گارہے ہیں_کالج میں جے شری رام کے نعرے لگا کر رام کے نام کو بد نام کرنے والا کون لوگ ہیں _؟ کہیں یہ تماشہ اسمبلی الیکشن کا اشو تو نہیں؟بے روز گاری،مہنگائی،کرپشن،اور اس طرح کے بہت سارے سوالات سے بھٹکانے اور چھٹکارا پانے کا ڈرامہ تو نہیں_؟ سیاست دانوں کے منشور میں شامل تو نہیں_؟انتخاب کا پروجیکٹ تو نہیں_؟
ہمیں اس وقت اردو کے عظیم ناول نگار ابن صفی کے ناول کا ایک اقتباس یاد آ رہا ہے_ جو یہاں درج کرنا آپ سب کے لئے اور اس تماشہ حجاب اور ڈرامہ نقاب کے حقیقت کے لئے ضروری سمجھتا ہوں_ ملاحظہ ہو۔
” ان کا طرز حکومت جمہوری کہلاتا ہے_ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مغز چند آ دمیوں کے حصے میں آ ئے اور ہڈیاں عوام کے آ گے ڈال دی جائیں_ یہ اپنے مسائل طاقت ہی سے حل کرتے ہیں_ مگر اسے اشتراک باہمی کا نام دیتے ہیں_ اس کے حاکم خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں_ عوام ہی انہیں حکومت کے لئے منتخب کرتی ہیں لیکن یہ ان کی مالی قوت ہی ہوتی ہے_ جو انہیں اقتدار کی کرسی پر پہنچاتی ہے_ لیکن وہ اسے عوام کی قوت اور رائے عامہ کہتے ہیں_ حالانکہ رائے عامہ مالی قوت ہی سے خریدی جاتی ہے_ انہیں منتخب ہونے کے لئے اپنے مخالفوں کے خلاف بڑے بڑے محاذ قائم کرنے پڑتے ہیں_اس خطرناک قسم کی جدوجہد شروع ہوتی ہے اور اس جنگ کو رائے عامہ ہموار کرنا کہا جاتا ہے_ اس میں بھی طاقت ہی کی کار فرمائی ہوتی ہے”
جب بھی الیکشن کا موسم آتا ہے _ ہم ساتھ ساتھ مرنے جینے،مصائب کا مقابلہ کرنے،ایک دوسرے کے کام آنے والے انسان ہندوستانی نہیں ہندو مسلم بن جاتے ہیں_ایک دوسرے کا پڑوسی نہیں دشمن نمبر ایک ہو جاتے ہیں_مسجد سے مندر کو خطرہ ہونے لگتا ہے_قبرستان سے سمسان پریشان نظر آتا ہے رام کو بھگوان سے لڑانے کی سازش رچی جاتی ہے اور ان دونوں میں زمین وآسمان کے بیچ لڑائی ہونے والی ہی رہتی ہے کہ اس بیچ ہندوستان میں پاکستان بھی آجاتا ہے_ اور ہم سب ہندستانی اپنے اپنےچار سال کی
عوامی اشو بھول کر نثرو اطلاعات،انفارمیشن،میڈیا،پرو پیگنڈے اور گمراہ کن خبر کے بازار پر اس طرح عمل کرتے چلے جاتے ہیں کہ ہم انسان نہیں،اپنے پاس دل ودماغ بھی نہیں ،احمقوں کی طرح پالتو کتا بن جاتے ہیں اور ٹریننگ یافتہ کتے کی طرح بغیر سوچے سمجھے بھوکنے شروع کر دیتے ہیں_
میں سوچ رہا ہوں کہ آ دمی سے زیادہ بے بس جانور اس سرزمین پر شاید ہی کوئی دوسرا پایا جاتا ہو_ ہمارے لیڈران مذہب کے نام پر بکواس ہی کیا کرتے ہیں عمل نہیں کرتے_ اگر عمل کرتے تو ان سب کے داماد مسلمان نہیں ہوتے_ لیکن ہم کرائے کےٹٹو،پالتو جانور نما انسان اپنے لیڈران کےبکواس پر عمل کرتے ہوئے آ زادی سے کتو ں کی طرح بھونکتے رہنے پر مجبور ہیں_ ہمارے ملک کے سیاست داں آدمی کو جانور تو بنا سکتے ہیں لیکن بے چارے کا قد نہیں بڑھا سکتے_وہ اپنے ہر مسائل کا حل عوام کے کشت وخون سے پورا کرتے ہیں _ کچھ لوگ پالتو کتوں کی زندگی گزار رہے ہیں تو کچھ روٹی کے لئے سر سے کفن باندھے مالک کے کہنے پر بھونکنے پر مجبور _ مجھے ان سب کرائے دار سے ہمدردی ہے_ اور یہ ہمدردی اس وقت رہے گی جب تک ہماری سوسائٹی صحیح معنوں میں انسانی سوسائٹی نہیں ٻن جاتی_
میڈیا والوں کو سوال کس سے پوچھنا چاہئے اور سوال کس سے کر بیٹھے_؟ ملزم کون ہے اور مجرم کس کو قرار دے بیٹھے_؟ بات ڈریس کوڈ کی کرتے ہیں وہ بھی نقاب اور حجاب کے لئے_کرناٹک کا واقعہ حجاب ونقاب اتروانا نہیں بلکہ ہندوستانی ناری کو ننگا دیکھنا ہے اور ان کی عزت و آبرو کو تار تار کرنے کی سارش ہے_ لڑکیاں حجاب اور برقع پہن کر کالج میں نہیں آ سکتی کیونکہ زعفرانی دوپٹہ اور اسکارف پہن کر بھگوا کپڑا لہراتے نوجوان آ گئے ہیں_ شرم کرو طالب علموں شرم کرو_ اگر تم پڑھنے والے ہو تو منشی پریم چند کا نام سنا ہوگا_ جنہیں اردو کہا نی کا بادشاہ کہا جاتا ہے_ وہ اپنی کہانی میں ہر ناری کو دیوی تسلیم کرتے تھے چاہے اس ناری کا کردار کچھ بھی ہو_
_رابطہ7250283933
DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of information contained.