(مفتی) یاسر ندیم الواجدی
مسکان خان کے نعرہ تکبیر نے حجاب کے مسئلے پر عالمی سطح پر گفتگو کی راہ ہموار کی ہے۔ دستور کے تحت دی ہوئی مذہبی آزادی کے خلاف منظم انداز میں جس طرح مہم جاری ہے، اس سے اقلیتوں میں مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال پائی جاتی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ چند نام نہاد مسلم اسکالرز کہ جن کی اسکالرشپ زعفرانی سیاست سے متاثرہے، نیز تحریک نسوانیت اور لبرل ازم کا شکار مسلمان یہ سوال کر رہے ہیں کہ حجاب مذہبی فریضہ کیسے ہے۔ میرے نزدیک یہ مسئلہ فرد کے شخصی اختیار کا نہیں ہے کہ وہ جو چاہے پہنے، لہٰذا کچھ لوگوں کا اس اصول کی بنیاد پر یہ کہنا کہ عورت کو حجاب کی آزادی ہونی چاہیے غلط ہے۔ درحقیقت یہ ایک مذہبی فریضہ ہے اور فرائض میں دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو انسان فرض پر عمل کر کے اپنے خالق کی خوشنودی حاصل کرتا ہے، یا پھر وہ گنہگار ہوتا ہے۔ ایک مسلم عورت کو مذہبی اعتبار سے یہ اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ جو چاہے پہنے، اس پر حجاب کی پابندی لازمی ہے۔
حجاب کا فریضہ اگرچہ قرآن میں مذکور ہے، لیکن یہ مطالبہ کہ قرآن سے حجاب کو ثابت کیا جائے بنیادی طور پر غلط ہے۔ شریعت صرف قرآن سے ثابت نہیں ہوتی، بلکہ قرآن کے اعلان کے مطابق سنت، اجماع اور قیاس سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مسلمان حلال کھانا ہی کھا سکتا ہے، حرام نہیں کھا سکتا، لیکن شکاری جانوروں کی حرمت قرآن میں نہیں ہے، بلکہ حدیث سے ثابت ہے۔ ایک عورت اور اس کی خالہ یا پھوپھی سے بیک وقت نکاح کرنا بالاتفاق حرام ہے، یہ مسئلہ بھی قرآن میں نہیں ہے، بلکہ حدیث سے ثابت ہے۔ لہٰذا حجاب کا مسئلہ بھی اگر صرف حدیث سے ثابت ہوتا تو کوئی حرج نہیں تھا۔
قرآن سے دلیل کا مطالبہ کرنے والے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ برقع اور نقاب کا لفظ کیوں کہ قرآن میں موجود نہیں ہے، اس لیے قرآن نے اس مسئلہ پر گفتگو نہیں کی ہے، لیکن وہ یہ سمجھنا نہیں چاہتے کہ الفاظ اہم نہیں ہیں، نظریہ اہم ہے جو واضح انداز میں قرآن کی سورہ احزاب آیت 59 میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے: ’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادر کا حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں، اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا۔‘
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مونڈھوں پر چادر لٹکالی جائے تو اس آیت پر عمل ہو جائے گا، جب کہ مونڈھوں پر چادر اوڑھی جاتی ہے، لٹکائی نہیں جاتی، قرآن نے اوڑھنے کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے، بلکہ لٹکانے کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن نے الفاظ ’چادر کا حصہ‘استعمال کیے ہیں، کسی بھی زبان میں مونڈھوں پر چادر ڈالنے کو چادر کا حصہ ڈالنا نہیں کہا جاتا۔ لامحالہ چادر کا حصہ لٹکانے کا مطلب چادر کو اس طرح لینا ہے کہ سر بھی ڈھک جائے اور چہرہ بھی۔ اس آیت میں اللہ نے ’یعرفن‘کا لفظ بھی استعمال کیا ہے اور یہ بتلایا ہے کہ حجاب کا مقصد یہ ہے کہ مسلم عورتوں کی شناخت کرلی جائے۔ گویا قرآن نے خود ہی حجاب کو مذہبی شناخت (ریلیجیس آئیڈنٹٹی) قرار دیا ہے۔
قرآن کی سورہ نور کی آیت 39 میں اللہ کہتا ہے کہ: ’اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبان پر ڈال لیا کریں۔‘ قرآن نے اس آیت میں لفظ خمار استعمال کیا ہے، جو خمر سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جو عقل کو چھپالے۔ دماغ کیوں کہ آلہ عقل ہے اس لیے محلِ دماغ یعنی سر کو چھپانے کے لیے خمار کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا گلے میں اوڑھنی ڈالنے سے اس آیت پر عمل نہیں ہو سکتا ہے، قرآن کے اس حکم پر عمل اسی وقت ہوگا جب اوڑھنی اس طرح اوڑھی جائے کہ سر بھی ڈھک جائے۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ سورہ نور کی اس آیت میں عورت کے ستر کا بیان ہے جب کہ سورہ احزاب میں عورت کے باہر جاتے وقت پردے کا تذکرہ ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر حجاب کے تعلق سے مذہبی تعلیمات کو نظر انداز کر دیا جائے اور حیا دار لباس کی تحدید کو انسانی عقل پر چھوڑ دیا جائے تو انسان کبھی بھی حیا (ماڈسٹی) کی تعریف اور اس کی تطبیق پر متفق نہیں ہوسکیں گے۔ کسی کے نزدیک شلوار قمیص حیادار لباس ہوگا اور ساڑھی بے حیائی کا لباس، تو کسی کے نزدیک منی اسکرٹ بھی باحیا لباس ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ مغربی خواتین بھی جو سمندر کے کنارے ’ٹاپ لیس‘ پھرتی ہیں اپنے آپ کو بے حیا کہلوانا پسند نہیں کرتیں۔ اس لیے حجاب اور حیا کے مسئلہ کو اگر مذہب کے بجائے، لبرل ازم کے سہارے چھوڑ دیا گیا تو انسان بے حیا ہوتے ہوے بھی باحیا کہلائے گا۔
حجاب جہاں ایک طرف مذہبی فریضہ ہے، وہیں فطری تقاضہ بھی ہے۔ اسی لیے قدیم بھارتی تہذیب سے لے کر، چینی، ورومی تہذیبوں میں بھی خواتین کے پردے کا ذکر ملتا ہے، مردوں میں فطری طور پر اقدام کی صفت ہوتی ہے، اس لیے کہ ان میں ٹیسٹاسٹیرون نامی ہارمون، خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ عورتوں میں فرار کی صفت ہوتی ہے اور اس کی علت ٹیسٹاسٹیرون کی قلت ہے۔ مرد ایگریسیو (تشدد پسند) اور جری ہوتے ہیں، اگر مذہب یا قانون کا احترام دل میں نہ ہو تو اپنے ٹارگٹ کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، اس کے برعکس خواتین کا اگر کسی مرد پر دل آ بھی جائے تو وہ اقدام نہیں کرتیں، الا یہ کہ ان کی فطرت ہی مسخ ہو چکی ہو۔ لہٰذا مرد کو برقع پہنانا مسئلہ کا حل کبھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر عورت میں اقدام کی صفت ہوتی تو مرد کی حفاظت کی جاتی، لیکن یہ صفت کیوں کہ مردوں میں ہے، اس لیے عورت کی حفاظت کی جائے گی۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اسلام کیوں کہ دین فطرت ہے، اس لیے اس نے مرد کو اس کی صفت اقدام کے پیش نظر پابند بنایا کہ وہی باہر جائے اور کماکر لائے، عورت کو کمانے کا پابند بنایا ہی نہیں گیا۔ مرد جب گھر سے نکلتا ہے، تو ایک مستقل ضرورت کے تحت نکلتا ہے، عورت جب نکلتی ہے تو وقتی ضرورت کے تحت نکلتی ہے اور وقتی ضرورت کے تحت جو حق ملتا ہے وہ ہمیشہ قید و بند کے ساتھ ملتا ہے۔ مثلاً لاک ڈاؤن میں نکلنا وقتی ضرورت کے تحت آتا ہے، لہٰذا وہی نکلے گا جس کے پاس پرمٹ ہوگی۔ اسی طرح اس آفاقی ضابطے کے مطابق مرد کو حجاب کا پابند نہیں بنایا گیا، بلکہ عورت کو پابند بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر عورت کی زندگی میں کوئی مرد نہ ہو اور اس کے پاس مستقل ضرورت کے تحت نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو اور چہرے کا کھولنا ناگزیر ہو، تو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق چہرے کا کھولنا جائز ہوگا۔
ان تفصیلات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حجاب جہاں ایک طرف مذہبی فریضہ ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت ہیں، وہیں فطری اور عقلی تقاضہ بھی ہے۔ اس کا انکار وہی کرے گا جو لبرل ازم کے ڈوگما کا شکار ہوکر فطرت کا منکر ہو۔
[email protected]