آرایس ایس کی مسلم ساکھا نے کرناٹک کی بی بی مسکان خان کی حمایت کی
دانش رحمنٰ
نئی دہلی : مسلمان طالبہ مسکان خان کو دیکھ کر زعفرانی رنگ کے مفلر پہننے والے لڑکوں نے ’جے شری رام‘کے نعرے لگائے جب کہ لڑکی نے ان کے جواب میں ’اللہ اکبر‘کا نعرہ لگایا۔ ان کا یہ ویڈیو سوشل میڈیا وائرل ہوا ہے جس میں وہ بلاخوف کالج کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ کالج میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ مسکان خان نے معاملے پر این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسائنمنٹ جمع کرانے کالج پہنچی تھیں، جب وہ بائیک کھڑی کر کے کالج کے اندر جانے لگیں تو وہاں موجود افراد نے ان کا راستہ روکا اور ان پر چیخے چلائے۔
کرناٹک میں حجاب بھگوا سے جڑا تنازعہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ تین دنوں کے لئے ریاست میں اسکول کالج بند کردئے گئے ہیں۔ اس واقعہ کا اثر مہاراشٹر میں بھی نظر آرہا ہے۔ مہاراشٹر کے مالیگائوں میں اس تنازعہ کو لیکر سیاسی بیان بازی اور پوسٹر بازی ہورہی ہے۔ بیڈ میں جگہ جگہ بینرس اور پوسٹر لگائے گئے ہیں۔ ان میں لکھا گیا ہے ۔ پہلے حجاب پھر کتاب کیوں کہ ہر قیمت پر چیز پردے میں ہوتی ہے۔ یہ بینر بیڈ شہر کے شیواجی مہاراج چوک، بشیر گنج چوک کے آس پاس لگائی گئی ہے ۔
حجاب کتاب کا موازنہ والے یہ بینرس نہ صرف بیڈ، بلکہ پورے مہاراشٹر میں بحث کا موضوع بن رہیں ہیں ۔ مالیگائوں میں بھی کرناٹک کے واقعہ کی مخالفت میں مسلم نوجوانوں کے ذریعہ جلوس نکالا گیا ہے۔
کرناٹک میں طالب علموں کے اسکول اور کالج میں حجاب یا برقع پہننے پر پابندی والا معاملہ تنازع کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ کرناٹک میں اب سیاسی پارٹیاں بھی اپنے اپنے انداز میں حمایت اور مخالفت میں کھڑی نظر آرہی ہیں۔ جہاں بی جے پی اسکولوں اور کالجوں میں مسلم لڑکیوں کے برقع پہننے کی مخالفت میں کھڑی ہے، وہیں کانگریس برقع پہننے والی مسلم لڑکیوں کی حمایت کررہی ہے۔ دریں اثنا، منگل (8 فروری) کو کچھ نوجوانوں نے ایک تعلیمی ادارے میں ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈا لہرایا۔ یہ الزام کرناٹک کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار نے لگایا ہے۔
مسلم نوجوانوں کا کہنا ہے کہ مسلمان خواتین اور لڑکیاں سینکڑوں سالوں سے حجاب کا استعمال کر رہی ہیں۔ اس وقت ایسا کیا ہوا کہ حجاب کے خلاف فتویٰ آنے لگا؟ کیا بھارت کو پاکستان بنانا چاہیے؟ کون کیا پہننا چاہتا ہے، انہیں فیصلہ کرنے دیں، کیا وہ نہیں؟ ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی جان بوجھ کر تنازعہ کھڑا کر رہی ہے۔
پوسٹروں اور بینرز کے ارد گرد جمع ہوئے بیڈ کے مسلم نوجوان کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک ملک ہے۔ اسے ایک رہنے دیں۔ اسکول اور کالجوں میں غیر مسلم لڑکیاں منگل سوتر پہن کر آتی ہیں، سر پر کنکو لگاتی ہیں۔ لڑکے کپال پر تلک لگاتے ہیں۔ ہم اس پر کبھی سوال نہیں کرتے۔ ہر انسان اپنی تہذیب کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ ہندوستان تمام مذاہب کا احترام کرنے والا ملک ہے۔ لیکن حال ہی میں اس طرح کا ماحول کیوں بنایا جارہا ہے؟ کرناٹک میں منگل کو مالیگاؤں میں بھی مسلم نوجوانوں نے اس واقعہ کے خلاف مورچہ نکالا۔
کرناٹک میں چل رہا حجاب تنازعہ اب سپریم کورٹ پنچ چکا ہے۔ اس کو چیف جسٹس کی بنچ کے سامنے مینشن کیا گیا ہے۔ ایڈوکیٹ اور کانگریس لیڈر کپل سبل نے سپریم کورٹ سے کیس کو اپنے پاس منتقل کرکے سنوائی کی گزارش کی ہے ۔ کپل سبل نے سپریم کورٹ میں یہ بھی کہا کہ معاملہ اب پورے ملک میں پھیلتا جارہا ہے ۔ چونکہ کوٹ نے اس پر جلد سنوائی سے انکار کردیا ہے۔ کورٹ نے ابھی کرناٹک سے اس سے جڑی عرضیوں کو ٹراسفر کرنے سے بھی انکار کردیا ہے ۔ کوٹ نے کہا کہ جب معاملہ ہائی کورٹ میں ہے تو اس اسٹیج پر دخل دینے کا کیا مطلب؟ کورٹ نے اس پر سنوائی کے لئے کوئی ایک تاریخ طے کرنے سے بھی انکار کیا۔
راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس ) کی مسلم ساکھا نے کرناٹک کی طالبہ بی بی مسکان خان کی حمایت کی ہے۔ سنگھ نے کہا کہ حجاب یا برقع بھی ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے ۔ آر ایس ایس مسلم وونگ ،مسلم راشٹریہ مورچہ نے حجاب پہننے کی بی بی مسکان کی عرضی کی حمایت کی ہے اور اس کے اردگرد کے بھگوا انماد کی مذمت کی ہے۔
انیل سنگھ نے کہا کہ حجاب یا پردہ بھی ہندوستانی ثقافت کا حصہ ہے اور ہندو خواتین اپنی پسند کے مطابق نقاب پہنتی ہیں۔ اور یہی شرط بی بی مسکان پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ سنگھ نے کہا کہ ہمارے سرسنگھ چالک نے کہا ہے کہ مسلمان ہمارے بھائی ہیں اور دونوں برادریوں کا ڈی این اے ایک جیسا ہے۔ میں ہندو برادری کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو اپنا بھائی تسلیم کریں۔
کرناٹک میں حجاب کو لے کر تنازعہ جاری ہے ۔ تنازعہ تب شروع جب اڈوپی (گورمنٹ پی یو فار ویمن) کے سرکاری کالج میں 6طالب علموں کو حجاب پہن کر کلاس میں آنے سے روک دیا گیا۔ طالب علموں کا کہنا ہے کہ حجاب پہننا ان بنیادی حقوق ہے ۔ یہ تنازعہ تشد کے موڑ پر آگیا۔ پیر کو کرناٹک کے کئی حصوں میں پتھر بازی اور جھڑپ بھی ہوئی ہے۔ شیموگا کا ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا جس میں کچھ طالب علم کالج میں ترنگے کے پول پر بھگوا جھنڈا لہراتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ وہیں مانڈیا میں برقع پہن کر آرہی ایک طالبہ کو کچھ طالب علم نے گھیر لیا اور جے شری رام کے نعارے بھی لگائے ۔
حجاب سے متعلق تنازعہ جنوری کے مہینے میں کرناٹک کے شہر اڈوپی سے شروع ہوا تھا۔ شہر کے پری یونیورسٹی کالج میں طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ کالج انتظامیہ نے ڈریس کوڈ کے مطابق لباس پہن کر آنے کو کہا۔ اس کے بعد ریاست کے کئی اضلاع میں تنازعہ بڑھ گیا۔ کئی تعلیمی اداروں میں لڑکیاں برقعہ پہن کر آتی رہیں، جب کہ کئی طالبات زعفرانی قالین اور مفلر پہن کر احتجاج میں آنے لگیں۔
دریں اثنا، بڑھتے ہوئے تنازعہ کو دیکھتے ہوئے کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومئی نے ریاست کے تمام ہائی اسکول اور کالج تین دن کے لیے بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ معاملہ فی الحال کرناٹک ہائی کورٹ میں ہے۔