حجاب تنازعہ کی سماعت: سپریم کورٹ کا مقررہ تاریخ دینے سے انکار

0
www.dnaindia.com

نئی دہلی: (یو این آئی) سپریم کورٹ نے ‘حجاب’ کے معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کے لیے جمعرات کو کوئی مقررہ تاریخ طے کرنے سے انکار کر دیا۔ چیف جسٹس این۔ وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے سینئر وکیل دیودت کامت کے ذریعہ جلد سماعت کے لئے کسی مقررہ تاریخ پردرج کرنے کی التجا کو مستردکردیا۔ دیودت کامت نے کرناٹک میں 28 مارچ سے ہونے والے امتحانات (بشمول درخواست گزار) کا حوالہ دیتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی کچھ طالبات کی درخواست کی سماعت کے لیے فہرست بنانے کی درخواست کی تھی۔ مسٹر کامت کی جانب سے ‘خصوصی ذکر’ کے دوران امتحان کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے کو سماعت کے لئے درج کرنے کی درخواست پر چیف جسٹس نے کہا، “اس کا امتحان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔”
چیف جسٹس نے 16 مارچ کو فوری سماعت کی درخواست کے پیش نظر ہولی کے بعد اس معاملے پر غور کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے اس معاملے کو انتہائی ضروری قراردیتے ہوئے 16 مارچ کو خصوصی ذکر کے دوران فوری سماعت کی درخواست کی تھی۔ اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پہننے پر پابندی کو جاری رکھنے کے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد، اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اس کے بعد کئی عرضیاں دائر کی گئیں۔
درخواست گزاروں میں شامل نبا ناز نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو وکیل انس تنویر کے ذریعہ سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا۔ عرضی گزار نے کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ طلبہ کے لیے کسی بھی طرح سے لازمی یونیفارم کا التزام نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ “حجاب پہننا اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ یونیفارم کا تعین آئینی ہے اور طلباء اس پر اعتراض نہیں کر سکتے۔”
عدالت میں دائر درخواست میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت کی طرف سے منظور5 فروری 2022 کے حکم کی صداقت پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ہدایت “مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر اسلامی عقیدے کے حجاب پہننے والی مسلم خواتین پیروکاروں کی تضحیک کرکے ان پر ایک طرح سے بالواسطہ حملہ کرنے کے ارادے سے جاری کیاگیاتھا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حجاب پہننے کا حق آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ضمیر کے حق کے تحت محفوظ ہے۔درخواست گزاروں نے مختلف دلائل کے ذریعے ہائی کورٹ کے فیصلے کو قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے چیلنج کیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS