اسکولوں کو یونیفارم طے کرنے کا اختیار، حجاب اس سے الگ چیز

0

نئی دہلی (ایجنسیاں) : سپریم کورٹ نے جمعرات کو تعلیمی اداروں میں حجاب کے استعمال سے متعلق سماعت کرتے ہوئے اہم تبصرہ کیا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ قوانین کے مطابق تعلیمی اداروں کو یونیفارم طے کرنے کا اختیارہے اور حجاب اس سے الگ چیز ہے، یہ تبصرہ اس لئے اہم مانا جارہا ہے کہ کرناٹک کے جس اسکول میں یہ مسئلہ پیش آیا ،اس کی انتظامیہ بھی یہی دلیل دیتی رہی ہے۔اس تبصرے سے حجاب کے نام پر ڈریس کوڈ کی مخالفت کرنے والوں کو جھٹکا لگ سکتا ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ نے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے واضح طورپر کہا ہے کہ تعلیمی اداروں کو اپنے مطابق یونیفارم کا فیصلہ کرنے کا اختیارہے اور حجاب اس سے الگ چیز ہے۔ اب سپریم کورٹ نے اس معاملے کی اگلی سماعت 19 ستمبر کو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت میں آج کی سماعت کے دوران بھی کئی وکلانے دلائل پیش کئے۔ لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، ایڈوکیٹ ڈاکٹر کولن گونسالویس نے پابندی کے خلاف دائر درخواستوں کے لیے پیش ہوتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کے پابندی کو برقرار رکھنے کے فیصلے پر سوال اٹھایا۔ گونسالویس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں بین الاقوامی رجحان کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے کہا کہ حجاب اسلام کا حصہ نہیں ہے، اس لیے یہ حق نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے ریمارکس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اور غلط بیانی کی ہے۔ یہی نہیں، اس نے دلیل دی کہ حجاب مسلمان لڑکیوں کو اسی طرح تحفظ فراہم کرتا ہے جس طرح پگڑی اور کرپان سکھوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ ایک دن پہلے سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ اس کا موازنہ کرپان، رودراکش، کڑا یا جنیو سے نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے کہا تھا کہ وہ کپڑوں کے اوپر نہیں پہنے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔حجاب کے معاملے میں کولن گنسالویس نے کہا جہاں تک حجاب اسلام کا لازمی جزو ہونے کا تعلق ہے، روایت قائم ہونے کے بعد یہ آرٹیکل 15 کے تحت آتی ہے، یعنی یہ بنیادی حقوق کا حصہ بن جاتی ہے۔ قرآن مجید میں حجاب کو بھی اسلامی روایت کا حصہ سمجھا گیا ہے، انہوں نے اپنے استدلال کی تائید میں جنوبی افریقہ، کینیڈا اور کینیا کی عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان فیصلوں میں مذہبی رواداری اور مذہبی لباس کی بات کی گئی ہے، کینیا کی عدالت کا فیصلہ اس معاملے میں چاروں پہلوو¿ں کو بہت اچھی طرح سے واضح کرتا ہے۔ ہم ہندوستان میں رہتے ہیں۔ یہاں صدیوں سے لاکھوں خواتین اور لڑکیاں حجاب پہنتی ہیں۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے پوچھا کہ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا دسمبر 2021 میں سرکاری حکم آنے سے پہلے ہی ان اسکولوں میں لڑکیاں اسکول ڈریس کے ساتھ حجاب پہنتی تھیں؟ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بعض ریاستوں میں ایسا تھا یا نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ حجاب روایت کا حصہ رہا ہے۔ حجاب صدیوں سے لاکھوں خواتین کے پہننے کی اسلامی روایت کا حصہ رہا ہے۔ اب لڑکیاں اسے کس وقت سے پہلے یا بعد میں پہنتی رہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کئی تکلیف دہ ریمارکس ہیں۔ عدالت نے یہاں تک کہ حجاب کو سماجی امتیاز کی بنیاد قرار دیا۔ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔سکھوں کو کرپان رکھنے کی آزادی دی گئی ہے۔ پگڑی پہننے کی اجازت ہے۔ جب کرپان اور پگڑی کو آئینی تحفظ دیا جا سکتا ہے تو پھر حجاب میں کیا دقت ہے۔ یہ تحفظ حجاب تک کیوں نہیں بڑھ سکتا؟ ہندوستان کا آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔ وقت اور حالات کے مطابق اس میں ترمیم کی جاتی ہے۔ کولن کی دلیل مکمل ہوگئی ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت آئینی بنچ کو کرنی چاہیے۔ ہندوستان میں تمام معاشروں اور طبقوں کے لوگ مختلف قسم کے کپڑے پہنتے ہیں لیکن عوامی مقامات پر وہ اپنی روایت اور مزاج کو کپڑوں کے ذریعے بتاتے ہیں لیکن اسکولوں یا بہت سے اداروں میں جہاں یونیفارم ہے وہاں لوگوں کو ان مذہبی روایات پر عمل کرنے کا حق ہے۔ یہ ایک ایسا حق ہے جو عزت اور اخلاق پر برا اثر نہیں ڈالتا۔آپ کو آرٹیکل 19 میں جواب دیکھنا ہوگا۔ اگر لباس پہننا اظہار کا حصہ ہے، تو آپ کو آرٹیکل19 کے تحت اس کی حد تلاش کرنی ہوگی جو کہ عوامی نظم، اخلاقیات، شائستگی ہے۔ یہی اصل آئینی سوال ہے۔ فرض کریں کہ کوئی سرکاری حکم نہیں تھا، اور ایک اسکول نے کہا کہ ہم آپ کو اسے پہننے نہیں دیں گے۔ کیا اس کی اجازت ہوگی؟ نہیں۔ یہ آرٹیکل 19 میں نہیں ہے۔ حجاب اب میری شخصیت کا حصہ ہے، میرا ایک حصہ ہے۔ اسے مجھ سے چھین نہیں سکتے۔ یہ میری ثقافتی روایت کا حصہ ہے۔ کیا میرا حق کالج کے گیٹ پر رک جاتا ہے؟میرے پاس حجاب کے فیصلے کے بعد مسلم لڑکیوں کے ڈراپ آو¿ٹ کی تعداد کا ڈیٹا ہے۔ ایک اخبار کو موصول ہونے والے آر ٹی آئی کے جواب کے مطابق،جنوبی کنڑ میں 900 مسلم لڑکیوں میں سے 145 نے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ لیاہے۔ یہ تقریباً 16 فیصد ہے اور یہ بہت پریشان کن ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS