مرکز کی مودی حکومت احساس زیاں اور ناکامی کے خدشہ سے بے نیاز ہوکر بزعم خودہندوستان کو ’ وشو گرو‘ بنانے کیلئے مطلوب ہر وہ اقدام اٹھا رہی ہے جو اسے منزل سے دور کررہا ہے۔ تعلیم کے شعبہ میں یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات کیے گئے ہیںجنہیں ارباب علم و دانش اور عقل و منطق کی تمام مسلمہ کسوٹیاں پہلے ہی ہلاکت خیز ثابت کرچکی ہیں۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم پر نت نئے تجربات اور تاریخ و سیاست کے مضامین کا مغز نکالنے کے بعد اب اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں ’ انقلاب آفریں‘ تجربہ شروع کیاگیا ہے۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے حکم نما خواہش ظاہر کی ہے کہ طلبا کا ذریعۂ تعلیم اگرچہ انگریزی ہی کیوں نہ ہو، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں امتحانات ان کی مادری اور علاقائی زبان میں لیا جائے۔یو جی سی کے چیئرمین ایم جگدیش کمار کی طرف سے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کے وائس چانسلرز کوایک مکتوب بھیج کر کہاہے کہ یونیورسیٹیاں آزادانہ طور پر طلبا کو جوابات لکھنے کا موقع فراہم کریں اور اس کیلئے ضروری ہے کہ طلبا کو ان کی مادری زبان یا علاقائی زبان میں امتحان دینے کی اجازت دی جائے۔ نیز تعلیمی مواد کے مقامی زبانوں میں ترجمے کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ تدریس کے عمل میں مقامی زبان کے استعمال پر بھی یونیورسیٹیاں زور دیں۔یو جی سی نے یہ نادر خیال قومی تعلیمی پالیسی 2020کے متن سے اخذکیا ہے جس میں مقامی اور مادری زبان کے ذریعہ سیکھنے کی وکالت کی گئی ہے۔یو جی سی کے مطابق بہت سے طلبا کا ذریعۂ تعلیم اگرچہ انگریزی ہوتا ہے لیکن انگریزی زبان میں وہ اپنے مافی الضمیرکی ادائیگی نہیں کرپاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں جوابات لکھنے میں مشکل محسوس ہوتی ہے۔یو جی سی کے اس اقدام کا مقصد علاقائی زبانوں کو فروغ دینا اور تعلیم کے ایک ذریعہ کے طور پر زبانوں کی اہمیت کو بڑھانا ہے۔یوجی سی کا دعویٰ ہے کہ اگراس کی اس خواہش پر ایماندارانہ عمل درآمد کرلیاگیا تو اعلیٰ تعلیم کیلئے مجموعی اندراج یعنی پڑھنے والے طلبا کا تناسب فقط 12برسوں میں 2035تک 27فیصد سے بڑھ کر50فیصد تک ہوجائے گا۔
یو جی سی کایہ قدم جسے اس نے خواہش اور رائے کا نام دیا ہے دراصل ایک ایسا حکم نامہ ہے جس کا نفاذاعلیٰ تعلیم کی تحدیدکا سبب بنے گا۔یہ درست ہے کہ مادری زبان میں تعلیم ابتدائی سطح پر نتیجہ خیز ہوتی ہے۔مادری اور علاقائی زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے طلبا کی علمی نشوونما پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ مطالعہ میں دلچسپی، تجریدی مضامین کو ٹھوس شکل میں تبدیل کرنے اور مضامین کو یاد رکھنے کی صلاحیت بڑھتی ہے اور طلبا کی خود اعتمادی کی نشوونمابھی ہوتی ہے۔لیکن یہی عمل اعلیٰ سطح پر اپنی معنویت ہی کھودیتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا مقصدطلبا کی انفرادی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ساتھ علم کے افق کو وسیع کرنا اور دوسروں تک بڑھانا ہوتاہے۔اعلیٰ تعلیم یونیورسیٹیوں میں فراہم کی جاتی ہے جس کے نام میں ہی یونیورس(کائنات) شامل ہے۔ لہٰذا یہ عمل مقامی نہیں ہوسکتا ہے۔اعلیٰ تعلیم درحقیقت علاقائیت سے بالاترعالمی سطح کا ایک عمل ہے،جہاں لسانیات کی توسیع ناگزیر ہوجاتی ہے۔ جب کہ اس سطح پرعلاقائی اور مادری ز بان کا دائرہ تنگ ہوجاتا ہے۔ ہماری علاقائی زبانیں ابھی نہ اتنی وسیع ہیں کہ ان میں اعلیٰ تعلیم کے تمام مضامین کی کتابیں دستیاب ہوں اور نہ اتنی زرخیز ہیں کہ وہ آنے والی ایک دو دہائی میں بھی اپنے دامن میں انہیں سمیٹنے کی اہل ہوسکیں۔ہندوستان کی کسی بھی علاقائی زبان میں اہم تکنیکی، طبی اور سائنسی مضامین کی وہ کتابیں دستیاب نہیں ہیں جن کے جویا اعلیٰ تعلیم کے طلبا ہیں۔نصابی کتب اور علمی ادب جیسے مطالعاتی مواد کی کمی معیار تعلیم میں کمی کا سبب بنے گی۔ویسے بھی علاقائی زبان میںتعلیمی منصوبے اور تحقیق بھی اب تک خواب بنے ہوئے ہیں تو ایسے امتحانات کے جوابی پرچے ان زبانوں میں کیسے لکھے جاسکتے ہیں اوراس کا حاصل کیا ہے۔ یوجی سی کواپنی رائے، خواہش اور حکم کی تعمیل کرانے سے قبل یہ ضرور بتانا چاہیے کہ علاقائی زبان میں اعلیٰ تعلیم دینے والے اساتذہ کتنے ہیں اور نصابی کتابوں کی دستیابی کا حجم کیا ہے۔علاقائی زبان میں امتحان دے کر پاس ہوجانے کے بعد عالمی بازار میں ہماری اعلیٰ تعلیم کی ڈگریوں کی کتنی وقعت ہوگی۔ ملازمت کے عالمی بازار میں ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مستقبل کیا ہوگا جہاں انگریزی میں روانی یقینی طور پر ایک الگ برتری فراہم کرتی ہے۔ یہ بھی بتاناچاہیے کہ یہ قدم کن اجالوں کی بانگ ہے اور اس سے وشو گرو کی منزل کتنی نزدیک آجائے گی ؟
[email protected]
اعلیٰ تعلیم اور علاقائی زبانیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS