غداری قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت آج

0

نئی دہلی(ایجنسیاں) : سپریم کورٹ آئی پی سی کی دفعہ 124 اے یعنی غداری قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کرے گا۔ سی جے آئی این وی رمنا، جسٹس سوریا کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کی خصوصی بنچ بدھ کو سماعت کرے گی۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور سابق فوجی افسر سمیت درخواستوں کی سماعت کی جائے گی۔ 15 جولائی 2021 کو ہونے والی سماعت میں، عدالت نے اسے ہندوستان کے آزادی پسندوں کے خلاف استعمال کرنے کو نوآبادیاتی قانون قرار دیتے ہوئے مرکزی حکومت سے سوال کیاتھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہغداری کا قانون نوآبادیاتی قانون ہے اور اسے انگریزوں نے ہماری آزادی سلب کرنے کے لیے استعمال کیاتھا۔ اسے مہاتما گاندھی اور بال گنگادھر تلک کے خلاف استعمال کیا گیاتھا۔
یہ کہتے ہوئے کہ عدالت غداری کے قانون کی قانونی حیثیت کی جانچ کرے گی، اس پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے پوچھا تھا کہ کیا آزادی کے 75 سال بعد بھی اس قانون کی ضرورت ہے؟ عدالت نے کہا تھا کہ کئی درخواستوں نےغداری کے قانون کو چیلنج کیا ہے اور ان سب کی ایک ساتھ سماعت کی جائے گی۔ عدالت نے کہا تھا کہ ہماری تشویش قانون کے غلط استعمال پر ہے۔ دراصل، عدالت نےغداری سے متعلق ‘نوآبادیاتی دور’ کے تعزیری قانون کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی ایک پٹیشن سمیت کئی عرضیوں پر مرکز سے جواب طلب کیاتھا۔ دریں اثنا اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے اس شق کے جواز کا دفاع کرتے ہوئے کہاتھا کہ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کچھ رہنما خطوط وضع کیے جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس این وی رمنا کی زیرقیادت بنچ نے کہا کہ اس کی بنیادی تشویش ’قانون کا غلط استعمال‘ہے اور اس نے پرانے قوانین کو منسوخ کرنے والے مرکز سے سوال کیاکہ وہ اس دفعہ کو کیوں نہیں ختم کر رہا ہے؟
سی جے آئی این وی رمنا نے کہا تھا کہ حکومت قانون کی کتابوں سے پرانے قوانین کو نکال رہی ہے تو اس قانون کو نکالنےپرغورکیوں نہیں کیاگیا؟ غداری کاقانون اداروں کے کام کاج کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ سی جے آئی کا کہنا ہے کہ غداری کا استعمال بڑھئی کو لکڑی کا ٹکڑا کاٹنے کے لیے آری دینے جیساہے اور وہ اس کااستعمال پورے جنگل کو کاٹنے کے لیے کرتاہے۔ ہم کسی ریاست یا سرکارکو موردالزام نہیں ٹھہرارہے ہیں، لیکن دیکھیں کہ انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 66اے کا استعمال کس طرح ہوتا رہتا ہے ،کتنے بدقسمت لوگ بھگت چکے ہیں اور اس کا کوئی محاسبہ نہیں۔یہ ایسا ہے جیسے کوئی پولیس افسر کسی گاو¿ں میں کسی کوٹھیک کرنا چاہتا ہے تو وہ دفعہ 124A کا استعمال کر سکتا ہے۔ لوگ خوفزدہ ہیں۔
دراصل، سپریم کورٹ نےغداری کے قانون کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والے ایک سابق فوجی افسر کی درخواست پر سماعت کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ قانون اظہار رائے پر ’خوفناک اثر‘ڈالتا ہے اور آزادی اظہار کے بنیادی حق پر غیر ضروری پابندیاں لگاتا ہے۔ سی جے آئی این وی رمنا، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ نے درخواست گزار کو ہدایت دی کہ وہ درخواست کی ایک کاپی اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کو سونپے۔میجر جنرل (ریٹائرڈ) ایس جی وومبٹکرے کی طرف سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ غداری سے متعلق تعزیرات ہند کی دفعہ 124اے پوری طرح غیر آئینی ہے۔ اسے واضح طور پر ختم کردیناچاہئے۔ عدالت عظمیٰ کی ایک علیحدہ بنچ نے2صحافیوں کشور چندر وانگ کھیمچا (منی پور) اور کنہیا لال شکلا (چھتیس گڑھ) کی درخواستوں پر مرکز سے جواب طلب کیا تھا جس میں غداری کے قانون کو چیلنج کیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS