شعبۂ صحت کے چیلنجز

0

جینتی لال بھنڈاری

کورونا وبا کے سبب شعبہ صحت کے چیلنجز میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت ملک کی 8ریاستوں ہماچل پردیش، جموں و کشمیر، لکشدیپ، تمل ناڈو، کرناٹک، میزورم، پدوچیری اور کیرالہ میں انفیکشن کی شرح ایک فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس شرح کو آر-نمبر(ری پروڈکشن نمبر) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے یہ علم ہوتا ہے کہ وبا کتنی متعدی ہے۔ ایک یا ایک سے نیچے کی تعداد دکھاتی ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ آہستہ ہے، جب کہ ایک سے اوپر کی کوئی بھی تعداد تیز پھیلاؤ کو دکھاتی ہے۔ ہندوستان میں اگست کے پہلے ہفتہ میں یہ شرح 1.2رہی، جو امریکہ، کناڈا اور آسٹریلیا کے برابر ہے۔ وزارت صحت نے آگاہ کیا ہے کہ ملک میں وبا کی دوسری لہر ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور تیسری لہر کا خدشہ بھی لاحق ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وبا سے پیدا ہوا صحت کا بحران ملک کے لیے انسانی، معاشرتی اور معاشی بحران میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس بحران کے سبب تیزی سے بڑھتی ہوئی فی شخص آمدنی اور ملک کی شرح نمومیں بھی کمی آئی ہے۔ ایسے میں اس وقت انتہائی مضبوط ہیلتھ انفرااسٹرکچر کے لیے بھاری بھرکم سرمایہ کاری ضروری ہے۔ وبا سے پیدا ہوئے صحت سے متعلق چیلنجز کے دوران یہ بہتر وقت ہوسکتا ہے جب شعبہ صحت کے بنیادی ڈھانچہ اور خدمات کو مضبوطی فراہم کرنے میں فارن ایکسچینج فنڈ سمیت دیگر ذرائع سے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل اکٹھے کرنے کی اسٹرٹیجک کوششیں کی جائیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ شعبہ صحت سے منسلک انسانی وسائل، بنیادی ڈھانچہ اور صحت خدمات کی کمی کم تشویشناک بات نہیں ہے۔ حال میں حکومت نے لوک سبھا میں بتایا کہ ملک میں 854 لوگوں پر ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر اور 559لوگوں پر ایک نرس دستیاب ہے۔ ملک میں 12لاکھ 68ہزار ایلوپیتھک اور 5لاکھ 65ہزار آیورویدک ڈاکٹر ہیں۔ نرسنگ عملہ کی تعداد 32لاکھ کے قریب ہے۔ آکس فیم انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسپتالوں میں بستروں کی دستیابی کے لحاظ سے 167ممالک میں ہندوستان 155ویں مقام پر ہے۔ ملک میں 10ہزار کی آبادی پر تقریباً پانچ بستر ہیں۔
ملک میں صحت سے متعلق بڑھتے چیلنجز کے سبب غریب طبقہ ہی نہیں، مڈل کلاس بھی زبردست مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ حال میں سپریم کورٹ نے ایک مفادعامہ کی درخواست پر سنوائی کے دوران کہا بھی تھا کہ کورونا کے دور میں صحت خدمات کے مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چھوٹے صحت مراکز میں علاج کی کافی سہولتیں نہیں ہیں۔ ملک کی 70فیصد صحت خدمات پرائیویٹ ہاتھوں میں ہیں۔ پرائیویٹ ہیلتھ سینٹر مریضوں کا استحصال کررہے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے مرکز اور سبھی ریاستوں کو نوٹس جاری کرکے جواب بھی طلب کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان میں مالی وسائل کی کمی کے سبب صحت ڈھانچہ اور صحت خدمات پر کبھی بھی معقول توجہ نہیں دی گئی۔ پندرہویں فائنانس کمیشن نے پہلی مرتبہ صحت کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل کی تھی۔ اس کمیٹی نے صحت کے شعبہ پر سرکاری خرچ کو بڑھا کر مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کے ڈھائی فیصد تک کیے جانے کی بات کہی ہے۔

دو-ڈھائی دہائی پہلے تک دنیا کے زیادہ تر غریب اور ترقی پذیر ممالک میں صحت پر زیادہ سرکاری خرچ کو نامناسب اور فضول کا خرچ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب تسلیم کیا جاتا ہے کہ صحت پر سرکاری خرچ خرچہ نہیں، بلکہ ایک ترقی پر مبنی اور انسانی خوشیوں سے متعلق فائدہ مند سرمایہ کاری ہے۔ نوبل انعام یافتہ اینگس ڈیٹن نے اپنی کتاب-صحت، دولت اور عدم مساوات میں کہا ہے کہ وبا اور متعدی امراض معاشی ترقی کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ صحت پر کی گئی سرمایہ کاری کئی گنا فائدہ دیتی ہے اور پیداوار میں اضافہ کرتی ہے۔

حالاں کہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مالی وسائل کی کمی کے باوجود ملک کے شعبہ صحت میں کئی بنیادی اصلاحات بھی ہوئی ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں عام آدمی کو صحت کی چھتری دینے کے لیے مؤثر قدم بھی اٹھائے گئے ہیں۔ ہندوستان میں 1990میں اوسط عمر59.6برس تھی جو 2019میں بڑھ کر 70.8برس ہوگئی ہے۔ نیشنل ہیلتھ مشن(این ایچ ایم) نے غریبوں تک علاج سے پہلے اور علاج کے بعد دیکھ بھال کی پہنچ کے طور پر عدم مساوات کو دور کرنے میں اہم کردار نبھایا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آتم نربھر بھارت مہم(خودکفیل ہندوستان مہم) کے تحت شعبہ صحت کو مضبوط بنانے کے لیے کئی مؤثر قدم اٹھائے ہیں۔ مالی سال 2021-22کے بجٹ میں صحت اور خوش حالی کے لیے 2,23,846کروڑ روپے کا خرچ یقینی بنایا گیا ہے، جب کہ 2020-21 میں یہ 94,452کروڑ روپے تھا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ وزیرمالیات نے چھوٹے اور مجھولے شہروں میں صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچہ کی توسیع کے لیے پچاس ہزار کروڑ روپے کی قرض گارنٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی بچوں و نوزائیدہ کی دیکھ بھال سے متعلق بنیادی سہولتوں کو ڈیولپ کرنے کے لیے 23ہزار کروڑ روپے کا اضافی الاٹمنٹ کیا ہے۔
ملک میں اس سال جنوری میں ٹیکہ کاری کا کام شروع ہوا تھا اور جولائی تک ملک کے 44کروڑ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکے دیے جاچکے تھے۔ لیکن ابھی ملک کے ہیلتھ انفرااسٹرکچر کو مضبوط کرنے اور سبھی لوگوں کی ٹیکہ کاری کے لیے بہت زیادہ وسائل اور کوششوں کی ضرورت ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں، صحت سے متعلق سہولتوں، دواؤں، ماہروتربیت یافتہ نرسنگ اسٹاف اور دیگر سہولتوں کی زبردست کمی ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں کی وجہ سے معاشرہ کے اعلیٰ و امیر طبقہ کے لوگوں کو تو معیاری صحت خدمات مل جاتی ہیں، لیکن غریب اور کمزور طبقہ کے لوگوں کے تعلق سے یہ حالت کافی تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ مہنگی ہوتی صحت خدمات کے سبب عام آدمی کیلئے صحت پر کیے جانے والے خرچ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس سے صحت پر خرچ غریبی کو بڑھانے والا ایک اہم سبب سمجھا جانے لگا ہے۔
دو-ڈھائی دہائی پہلے تک دنیا کے زیادہ تر غریب اور ترقی پذیر ممالک میں صحت پر زیادہ سرکاری خرچ کو نامناسب اور فضول کا خرچ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب تسلیم کیا جاتا ہے کہ صحت پر سرکاری خرچ خرچہ نہیں، بلکہ ایک ترقی پر مبنی اور انسانی خوشیوں سے متعلق فائدہ مند سرمایہ کاری ہے۔ نوبل انعام یافتہ اینگس ڈیٹن نے اپنی کتاب-صحت، دولت اور عدم مساوات میں کہا ہے کہ وبا اور متعدی امراض معاشی ترقی کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ صحت پر کی گئی سرمایہ کاری کئی گنا فائدہ دیتی ہے اور پیداوار میں اضافہ کرتی ہے۔ مختلف معاشی و معاشرتی ریسرچ کے مطالعات میں پایا گیا ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں یوروپی ممالک میں تیزی سے بڑھی زندگی کی امید اور معاشی ترقی کے پیچھے ایک اہم سبب ہیلتھ انفرااسٹرکچر کے ڈیولپمنٹ اور معیاری صحت خدمات کی توسیع بھی رہی ہے۔ ایسے میں ہمارے ملک میں بھی کورونا وبا کے چیلنجز کے دوران یہ واضح دکھائی دے رہا ہے کہ پبلک ہیلتھ سسٹم کے تحت خصوصی طور پر پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز اور ضلع اسپتالوں کو مفید اور مضبوط بنانے کیلئے مؤثر سرمایہ کاری ضروری ہے۔ موجودہ اسپتال کی بلڈنگوں کو معیاری طور پر مزین کرنا ہوگا۔ چھوٹے گاوؤں اور دیہی علاقوں میں نئے پرائمری ہیلتھ سینٹرز کا قیام کرنا ہوگا۔ اسپتالوں میں آکسیجن، ضروری دواؤں اور زندگی کیلئے مفید صحت کے سامان کی بہترین سپلائی چین پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ پرائمری اور ضلع اسپتالوں میں ہیلتھ ورکروں کی مسلسل تربیت پر توجہ دینی ہوگی۔ جانچ لیبارٹیز کو ایڈوانس بنانے ہیلتھ اکیوپمنٹس کے معیار میں بہتری کے لیے زیادہ توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ یہ وقت ملک کو مستقبل کے صحت بحران سے بچانے، عام آدمی کی پروڈکٹیوٹی اور زندگی کی سطح کو بڑھانے کیلئے صحت کے شعبہ پر غیرمعمولی سرمایہ کاری کا ہے۔ خاص طور پر جب ملک کے زرمبادلہ کا ذخیرہ 612ارب ڈالر سے زیادہ پہنچ گیا ہے، تب معیاری صحت خدمات اور ہیلتھ انفرااسٹرکچر کی مضبوطی کیلئے ملک کے فارن ایکسچینج ریزروس کے ایک مناسب حصہ کا اسٹرٹیجک استعمال کیا جانا مناسب ہوگا۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS