از : محبوب اشرف قادری امجدی
صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ ١٣٠٠ھ /مطابق نومبر/١٨٨٢ء کو محلہ کریم الدین پور قصبہ گھوسی ضلع مؤ ریاست اترپردیش انڈیا میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے_
تحصیل علم : ابتدائی تعلیم اپنے دادا حضرت مولانا خدا بخش سے گھر پر حاصل کی پھر اپنے قصبہ ہی میں مدرسہ ناصر العلوم میں جاکر مولانا الہی بخش صاحب سے کچھ تعلیم حاصل کی۔پھر جونپور پہنچے اور اپنے چچا زاد بھائی اور استاد مولانا محمد صدیق سے کچھ اسباق پڑھے۔پھر جامع معقولات ومنقولات حضرت علامہ ہدایت اللہ خان رامپوری سے علم دین کے چھلکتے ہوئے جام نوش کۓ اور یہیں سے درس نظامی کی تکمیل کی پھر دورہ حدیث کی تکمیل پیلی بھیت میں استاد المحدثین حضرت مولانا وصی احمد سورتی سے کی-
حضرت محدث سورتی نے اپنے ہونہار شاگرد کی عبقری صلاحیتوں کا اعتراف ان الفاظ میں کیا: مجھ سے اگر کسی نے پڑھا تو امجد علی نے
آپ کا حافظہ بہت مضبوط تھا ایک مرتبہ کتاب دیکھنے یا سننے سے برسوں تک ایسی یاد رہتی جیسے ابھی ابھی دیکھی یا سنی ہے تین مرتبہ کسی عبارت کو پڑھ لیتے تو یاد ہوجاتی۔ایک مرتبہ آپ نے ارادہ کیا کہ کافیہ کی عبارت زبانی یاد کی جاے تو فائدہ ہوگا تو پوری کتاب ایک ہی دن میں یاد کرلیا ۔
صدر الشریعہ بارگاہ اعلی
حضرت میں :صدر الشریعہ نے اعلی حضرت امام اہلسنت کی خدمت میں ١٨/سال گزارے آپ کی جدو جہد اور آپ کی مصروفیات کو دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ ایک انسان اتنے کام بھی کرسکتا ہے؟آپ کو انجمن اہلسنت کی نظامت اور اس کے پریس کے اہتمام کے علاوہ مدرسے میں تدریس،دوسرے پریس کا کام یعنی کاپیوں کی تصحیح،کتابوں کی روانگی خطوط کے جواب آمد و خرچ کے حساب،یہ سارے کام تنہا انجام دیا کرتے تھے۔حضور صدر الشریعہ کتنے ہی مصروف رہتے لیکن آپ کی زندگی کا ایک معمور تھا کہ آپ فجر کی نماز کے بعد ایک پارہ کی تلاوت فرماتے اور پھر ایک حزب دلائل الخیرات شریف پڑھتے۔اس میں کبھی ناغہ نہ ہوتا اور بعد نماز جمعہ بلاناغہ ١٠٠بار درود رضویہ پڑھتے۔حتی کہ سفر میں بھی جمعہ ہوتا تو نماز ظہر کے بعد درود رضویہ نہ چھوڑتے چلتی ہوئی ٹرین میں کھڑے ہوکر پڑھتے۔ٹرین کے مسافر اس دیوانگی پر حیرت زدہ ہوتے مگر انہیں کیا معلوم۔خلیفہ صدرِ شریعت،پیر طریقت حضرت علامہ مولانا حافظ محمد مصلح الدین رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے سنا ہے،وہ فرماتے تھے،مصنف بہار شریعت حضرت صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہمراہ مجھے مدینۃ الاولیاء احمد آباد شریف میں حضرت سیدنا شاہ عالم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دربار میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔اور اپنے اپنے دل کی دعائیں کرکے جب فارغ ہوئے تو میں نے اپنے پیرو مرشد حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض کی ۔حضور! آپ نے کیا دعا مانگی؟ فرمایا: ہرسال حج نصیب ہونے کی۔میں سمجھا حضرت کی دعا کا منشا یہی ہوگا کہ جب تک زندہ رہوں حج کی سعادت ملے۔لیکن یہ دعا بھی خوب قبول ہوئی کہ اسی سال حج کا قصد فرمایا۔سفینہ مدینہ میں سوار ہونے کے لئے اپنے وطن مدینۃ العلماء گھوسی ضلع مؤ سے بمبئی تشریف لائے۔یہاں آپ کو نمونیہ ہوگیا اور سفینے میں سوار ہونے سے قبل ہی ١٣٦٧ کے ذی القعدہ کی دوسری شب ١٢بجکر ٢٦منٹ پر بمطابق ٦/ستمبر ١٩٤٨کو آپ وفات پاگئے انا للہ و انا الیہ راجعون
ابررحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے