عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
عام طور پرہر انسان اپنی زندگی میں مختلف مراحل سے گزرتا ہے،ان گنت نشیب و فراز سے دوچار ہوتا ہے،بہت سارے مصائب و حادثات کا شکار ہوتا ہے اور عروج و زوال کی کئی وادیوں کو عبور کرتا ہواسفر آخرت پر روانہ ہوجاتاہے۔قرآن مجید میں حق تعالی شانہ نے انسانی زندگی کے مختلف مراحل میں سے تین اہم اور نمایاں مرحلوں کا کچھ اس طرح تذکرہ کیا ہے:اللہ وہ ہے جس نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کمزوری سے کی، پھر کمزوری کے بعد طاقت عطا فرمائی، پھر طاقت کے بعد (دوبارہ) کمزوری اور بڑھاپا طاری کردیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہی ہے جس کا علم بھی کامل ہے اورقدرت بھی۔ (الروم:54)غور کیا جائے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسان کے وہ تدریجی احوال بیان فرمائے ہیں، جن میں وہ مجبور محض ہوتا ہے اور اپنے اختیار سے ان حالات میں خود کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا، پیدا ہوتا ہے تو اس قدر کمزور کہ کسی بھی جان دار کا بچہ اتنا کمزور پیدا نہیں ہوتا،ہر جان دار کا بچہ پیدا ہوتے ہی مختصر وقفے میں چلنے پھرنے لگتا ہے؛ مگر انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا اور چلنے کی نوبت تو ڈیڑھ دو سال بعد آتی ہے۔ پھر اس کے بعد اس پر بلوغت اور جوانی کا دور آتا ہے تو وہ جسمانی طور پر طاقت ور اور مضبوط ہوتا ہے، اس کے قوائے عقلیہ، اس کا فہم و شعور سب جوبن پر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس پر انحطاط کا دور آتا ہے،قوتیں جواب دینے لگتی ہیں،اعضا مضمحل ہونے لگتے ہیں، کئی طرح کے عوارض اور بیماریاں آگھیرتی ہیں حتیٰ کہ اس کی عقل بھی زائل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہ سب زندگی کے ایسے مدارج ہیں؛ جن سے انسان کو نہ کوئی مفر ہے اور نہ ان میں کوئی تبدیلی لاسکتا ہے، انسان لاکھ چاہے کہ بڑھاپے کے بعد اس پردوبارہ جوانی کا دور آئے؛مگرممکنہ کوشش کے باوجود وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ جس تدریج کے ساتھ اللہ تعالی اسے ان مراحل سے گزارتا ہے، اسے بہرحال گزرنا پڑتا ہے۔
انسانی زندگی کے ان تمام مراحل میں سب سے اہم،قیمتی اور قابل قدر مرحلہ جوانی کا مرحلہ ہے،انسان جوانی کے دور میں بہت سے اچھے کام انجام دے سکتا ہے؛ اس لیے کہ یہ دور انسان کی طاقت اور صلاحیتوں کے عروج کا دور ہوتا ہے، جوانی کا وقت کام کاج، سعی و کوشش اور امید و نشاط کا وقت ہے، انسان کی زندگی میں بہت سی اہم تبدیلیاں اسی دوران رونما ہوتی ہیں اور اسی دوران ہرفرد کی سرنوشت اور اس کے مختلف پہلو متعین ہوتے ہیں؛یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کو قوم و ملت کا قیمتی سرمایہ اور بیش بہا اثاثہ کہا جاتا ہے۔جس قوم کے نوجوان بیدار و باشعور ہوتے ہیں اس قوم کا مستقبل محفوظ ہوتا ہے، اس کے برعکس جس قوم کے نوجوان غیر فعال اور تن آسانی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ نوجوانوں کا فعال کردار ہی قومی ترقی کا ضامن ہے اور نوجوان نسل ہی صحیح معنوں میں کسی قوم کی افرادی قوت ہے۔
نوجوانوں کا مطلوبہ کردار
کتاب و سنت کی روشنی میں:
اب آئیے! ایک نظر قرآن مجید پر ڈالتے چلیں کہ وہ نوجوانوں کی اہمیت اور ان کے مطلوبہ کردار کے حوالے سے کیا کہتا ہے۔ قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردار اس طرح سے بیان کرتا ہے: ’’ہم ان کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی‘‘۔(الکہف) یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکم ران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کااعلان کیاتھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کے عزم وحوصلے اور ان کے عالم گیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرمایا:’’ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔(الکہف) ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں عزیمت و استقامت کاجو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے اسوہ اورنمونہ ہے۔اسی طرح سے قرآن مجید نے حضرت موسٰی ؑ پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسٰی ؑ کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا؛لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنھوں نے کٹھن حالات میں حضرت موسٰی ؑ کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ ارشادباری ہے:’’موسٰی ؑ کو اسی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربراہ لوگوں کے ڈر سے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘۔ ان آیات قرآنی کے علاوہ جوانی کی قدرو قیمت کے سلسلہ میں بہت ساری احادیث بھی مروی ہیں؛ جن میں جوانی کے نیک اعمال اور ان پر مرتب ہونے والے اجر وثواب کی خبر دی گئی ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے جوان کے بارے میں جس نے اپنی جوانی کے ایام کو اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں گزارا ہو، فرمایا کہ قیامت کے دن جب ہر شخص پر نفسی نفسی کا عالم طاری ہو گا، کسی کو قیامت کے روز کی تمازت سے بچنے کے لیے سایہ مہیا نہیں ہو گا، اس دن جن چند لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا خاص سایہ حاصل ہو گا ان میں ایسا جوان بھی شامل ہو گا جس نے اپنی پوری زندگی اللہ کی اطاعت وفرماں برداری اور اس کی عبادت میں گزارای ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:قیامت کے دن سات طرح کے انسان کو اللہ کا سایہ حاصل ہو گا جس دن سوائے اللہ کے سایہ کے کسی اور طرح کا کوئی سایہ نہ ہو گا، ان میں سے امام عادل، ایسا نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری، ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں معلق رہتا ہو، دو ایسے انسان جو آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور نفرت صرف اللہ کے لیے کرتے ہیں اور ایسا شخص جسے کسی خوب صورت اور باحیثیت عورت نے گناہ کی دعوت دی اور اس نے کہا ہو کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور ایسا شخص جو اتنی راز داری سے صدقہ کرتا ہو کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوسکے کہ دائیں ہاتھ سے کچھ دیا ہے اور ایسا شخص کہ جب بھی اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
اسی طرح امام حاکم ؒ نے اپنی کتاب’’مستدرک ‘‘ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے، نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا:’’۵؍چیزوں کو ۵؍ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔‘‘ اور ان ۵؍چیزوں کے ضمن میں فرمایا:’’بوڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت جانو!۔‘‘کیونکہ جوانی کا مرحلہ ایسا مرحلہ ہے جس کو عمرکا سنہرا موقع باورکیا جاناچاہیے؛ اس لئے کہ جوانی کے ایام تو وہ ایام ہواکرتے ہیں جن میں انسان پورے طورپرصحت وعافیت اور ہرطرح کی حرکت ونشاط سے مالامال ہوتا ہے؛ لہذا اسے دینِ اسلام کی بھر پور خدمت اور اس کی طرف پوری توجہ مرکوزکرنے اوراچھے کاموں کی انجام دہی نیزحصول علم اور زندگی کے مختلف میدانوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر صرف کرنا چاہیے۔مؤرخین اور سیرت نگاروں کے مطابق ابتدائے اسلام میں تعلیمات اسلامی نے نوجوانوں پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں، کائنات کی تاریخ میں صحابہ کرام کی نوجوان جماعت نے اپنے کردار واخلاق سے قیامت تک آنے والی نسلوں کو متاثر کیا ہے، جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ عاجز و قاصر ہے۔ مجتبیٰ فاروق صاحب عصر حاضر میں نوجوانوں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: جوانی کی یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے بار گاہِ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا۔ دورِ شباب ہی میں حضرت علیؓ،حضرت مصعب بن عمیرؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ اور عبادلہ (جن میں ابن عمرؓ،ابن عباسؓ، ابن زبیرؓاور ابن عمرو بن العاصؓ ہیں) نے اللہ کے رسولؐ سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور امام غزالی جیسے مجدد علوم کی گہرائیوں میں اترے،اسی دورشباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمدبن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سرزمین کو دعوت الی اللہ کے لیے مسکن بنایااور مولاناابوالکلام آزاد نے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا۔
جوانوں کی تن آسانی:
ایک طرف ہماراشان دار ماضی نوجوانوں کے عمدہ کارناموں، بے مثال قربانیوں اور مختلف دینی و ملی خدمات سے روشن و تاباں ہے اور دوسری طرف دورحاضر کے نوجوانوں کی تن آسانی،عیش کوشی،کسل مندی اور ذمہ داریوں سے فرار و دوری درد مندانِ قوم و ملت کو خون کے آنسو رلارہی ہے۔ اگر عصر حاضر کے نوجوانوں، ان کی مصروفیات، خواہشات اور تمناؤں کا موازنہ عہد رسالت کے نوجوانوں، ان کی مشغولیات اور جذبات سے کیا جائے تو حد درجہ تکلیف دہ صورت حال سامنے آتی ہے۔ دونوں میں زمین وآسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ کہاں عصر نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوجوانوں کا جذبۂ تعلیم وتعلم، جذبہ ٔعبادت اور کہاں عصر حاضر کے نوجوانوں میں منشیات کی لت، بیکاری وکام چوری کی عادت اور تباہ کن کھیلوں کا شوق؟؟۔
عصر حاضر کے نوجوان، دین سے کس قدر دور ہوتے جارہے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ان سے پنج گانہ نمازوں کے معمولی احکام دریافت کریں، دین کے متعلق بنیادی باتیں پوچھیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں، ایک وہ دور تھا کہ عہد رسالت کے بچے بچے کی زبان پر قرآن کا ورد ہوتا تھا، وہ غیر معمولی حد تک دینی امور سے واقف ہوتے تھے،ایثار وقربانی ان کی گھٹی میں پڑی ہوتی تھی؛مگر افسوس۔آج دین و دنیا کے دونوں میدان مسلمانوں کی پس روی و پس گردی کا شکوہ کررہے ہیں اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی آفاقی اور انقلابی شاعری کے ذریعہ جہاں مشرق کے تفوق و امتیاز کو جگہ جگہ اجاگر کیا،وہیں نئی نسل کو اس کا بھولا ہوا سبق بھی یاد دلایا، اقبال مرحوم اپنی ایک نظم بہ عنوان”خطاب بہ جوانانِ اسلام”کے ذریعہ نوجوانوں کو ملت کے تاب ناک ماضی سے درسِ عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور نہایت مفکرانہ لہجے میں فرماتے؛بل کہ پوچھتے ہیں کہ اے نوجوان! تمہیں اپنے ماضی کی کچھ خبر بھی ہے؟ کیا تم نے اس بات پر کبھی غور و فکر کیا ہے کہ تمہارا ماضی کیا رہا ہے؟ تمہارے اسلاف کون تھے؟ تمہارا تعلق کس قوم سے ہے؟ اور کن لوگوں نے تمہیں اپنی آغوش میں پالا پوسا ہے؟ وہ قوم جو دنیا کی حکم رانی اور جاہ و حشمت کو اپنی جوتیوں تلے روندتی تھی،جس کے قدموں میں کئی سارے تاج پڑے رہتے تھے،جس قوم نے کبھی اپنی خودی کا سودا نہیں کیا؛لیکن آج تم معمولی اور حقیر مقاصد کے لیے اپنی خودی کو بیچ دیتے ہو،تن پروری تمہاری عادت بن چکی ہے،پدرم سلطان بود کے نعروں کے سوا تمہارے پاس باقی ہی کیا رہ گیاہے؟