معاملات صاف کریں، ناچاقیا دور کریں

0

سیدظہیرٹپٹوری

ہمارے معاشرہ میںجھگڑوںاورتنازعات کاجوسلسلہ چل رہاہے اس کاایک بڑاسبب آپسی معاملات کی عدم درستگی ہے ،کیونکہ جائدادکی خریدوفروخت ،تجارت کی شراکت داری اورشادی بیاہ کے معاملات صرف ایک بھروسہ ،اعتماداورآپسی پرانے تعلقات کی بنیادپرکئے جاتے ہیںوہاںمعاملات کی صفائی کے بجائے تعلقات پرزیادہ اعتمادکرلیاجاتاہے نتیجہ یہ نکلتاہے کہ جس پرسب سے زیادہ بھروسہ کیا تھا اسی سے بڑانقصان پہنچتاہے اوربعض مرتبہ ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ جاتاہے جس کی بھرپائی ساری عمرمحنت کرکے بھی نہیںکی جاسکتی اسلام کی تعلیم تویہ ہے کہ ,,آپس میںبھائیوںکی طرح رہن سہن رکھولیکن لین دین کے معاملات اجنبیوںکی طرح کرو،،یعنی کھلاناپلانا،خاطرداری کرنایہ سب اجنبیوںکے ساتھ بھی ایساکریںگے جیسے گھرکے آدمی کے ساتھ کرتے ہیںمگرمعاملہ کرنے اورلین دین کی بات آئے توبھائی کے ساتھ بھی معاملہ کریںگے توایساجیسے کسی اجنبی کے ساتھ کرتے ہیں،جیسے کسی اجنبی پربھروسہ نہیںکرتے بل کہ معاملہ کی صفائی ہوتی ہے اورلکھاپڑھائی ہوتی ہے اسی طرح گھرکے آدمی کے ساتھ بھی کریںگے ، آج اسی چیزکی کمی نے ہماری معیشت کوتباہی کے دہانے پرپہونچادیاہے ،اس کے ساتھ حرص بھی شامل ہوجائے توکیاکہنے ،ہماری اسی حرص اورمعاملات کی عدم درستگی کی وجہ سے ہرکوئی ہمیںآج لوٹ رہاہے ، بڑی بڑی تجارت کرنے کے نام پرلاکھوںروپئے جمع کرلیاچنددن منافعہ کی شکل میںکچھ رقم دیتارہااورپھریکسرایسے غائب ہوگیاکہ ساری جمع شدہ پونجی سے ہاتھ دھوناپڑا،پھرڈپریشن ،خودکشی اورآپسی گھریلوجھگڑے شروع ہوجاتے ہیں،اس لئے اسلامی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے بہت ہی محتاط اندازاختیارکرنے کی ضرورت ہے ،بعض مرتبہ بھائیوںکامشترکہ کاروبارچل رہاہوتاہے اس میںکسی کی کوئی حیثیت طے نہیںہوتی کہ کس کاکتنے فیصدحصہ ہے اوربھائیوںمیںسے کون ملازم کی طرح کام کرے گااورکس کے اختیارات چلیںگے۔
اس طرح کی کوئی بات طے نہیںہوتی ہربھائی اپنی ضرورت کے مطابق پیسے خرچ کرتارہتاہے ،حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کے سراسرخلاف ہے ،پھرجب شادیاںہوکربچے کچھ شعوروالے ہوجاتے ہیںتواب باتیںشروع ہوتی ہیںکہ یہ ہمارے ابوکاہے ،دوسرے بھائی کی اولادکہتی ہے کہ نہیں!یہ ہمارے ابوکاہے جبھی تووہ روزانہ دوکان کوجاتے اوررات دیرگئے واپس آتے ہیں،اب دبی ہوئی رنجشیںباہرآنے لگتی ہیں،اب تک جولاوا دلوںمیںپک رہاتھا؛آتش فشاں بن کرپھوٹ جاتاہے اورآپس میںاتنی نفرت آجاتی ہے کہ ایک دوسرے کی صورت دیکھناگوارانہیںہوتا،یہ سب محض اس وجہ سے کہ کاروبارکی شروعات میںہم نے یہ نہیںطے کیاکہ کس کاکتناحصہ ہوگا یاکون مالکانہ حیثیت رکھتاہے اورکون ملازم کے درجہ میںہے ،اسی طرح باپ کے کاروبارکے ساتھ بیٹاجڑاہواہے تویہ نہیںطے کیاگیاکہ بیٹے کی حیثیت کیاہوگی ؟اسلامی تعلیمات میںہرموقعہ کے لئے رہنمائی ہے اگراس کالحاظ کرکے ہم کاروبارکریںگے توکوئی وجہ نہیںکہ آپسی رنجشیںجنم لے لیں،اسی طرح باپ کی موجودگی میںکوئی مکان بن رہاہے توسب اپنااپنامال لگاتے ہیںاوریہ نہیںلکھ رکھتے کہ میںنے کتنامال لگایاہے ،جب جب ضرورت پڑی جس کے پاس تھے اُس نے لگادئے،جب مکان بن گیاتوتنازعہ کھڑاہوگیاکہ یہ گھرکس کاہے یا کون کہاںرہے گا،اب چونکہ یہ پتہ نہیںہے کہ کس کاکتنامال لگاہے ؛ہرایک یہ دعوی کرتاہے کہ میرامال زیادہ لگاہے ،اگرتعمیرکی شروعات ہی میںیہ طے ہوجاتاکہ گھرکاکونساحصہ کس کاہوگااورہرایک کوکتنے فیصدمال لگاناہے توپھریہ خاندانی فسادکی نوبت نہ پیش آتی ،اسی طرح اگرکسی کاانتقال ہوجاتاہے تواسلامی تعلیم یہ کہتی ہے کہ اس کی وراثت فورًاتقسیم کرو،مگرہمارے معاشرہ میںہوتایہ ہے کہ جس کے جوہاتھ لگا وہ لے گیا،کوئی بیٹاباپ کی دوکان پرکام کررہاتھاتواب وہی دوکان کامالک بن گیا،حالانکہ اس میںسب کاحق ہے ،اسی طرح وراثت تقسیم بھی ہوتوبیٹیوںکوبرائے نام حصہ دیاگیایایہ کہہ کرمحروم کردیاگیاکہ تمہاری جوشادیاںکی گئیںہیںوہی کافی ہے ،حالانکہ شادی کرناایک ذمہ داری تھی جیسے وراثت میںمال دیناایک ذمہ داری ہے ،اب برسوںکی محبتیںدیکھتے ہی دیکھتے ملیامیٹ ہوجاتی ہیں۔
ایک دوسرے پرمرمٹنے کے دعوے محض دعوے بن کررہ جاتے ہیں،اگراسلامی تعلیمات پرعمل ہوتااورہرایک کاوراثت میںجوحصہ ملناہے وہ دیدیاجاتاتویہ محبتیںسداںرہتیں،غرض یہ چندمثالیںتھیں،اصل بات تویہ ہے کہ ہم اپنے معاملات بل کہ زندگی کے ہرموڑپراسلامی تعلیمات کوسامنے رکھ کراس کی رہنمائی کے ساتھ عمل کریںگے توترقی بھی ہوگی اورآپسی محبتیںبھی باقی رہیںگی ،آپسی معاملات طے کرنے میںکوئی شرم محسوس نہیںہونی چاہئے کہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسامعاملہ طے نہیںہوناچاہئے تھااوریہ کہ ہم توایساموقعہ آنے دیںگے وغیرہ اورجوشرائط طے ہوںوہ بالکل واضح ہونی چاہئے کہیںکوئی ابہام نہیںہونی چاہئے ۔اللہ تعالی عمل کی توفیق دے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS