تعلیمی اداروں میں نفرت و تعصب

0

مظفر نگر کے کھبا پور گائوںکے ایک اسکول میں جو کچھ ہوا ، اس کی نہ توتعلیم میں گنجائش ہے اورنہ ایک مہذب سماج میں اس کے بارے میں کوئی سوچ سکتا ہے۔یہ ملک کے آئین کی روح کے بھی خلاف ہے اورملک کے سیکولر تانے بانے پر اس سے ضرب پڑتی ہے ۔اسی لئے جس نے بھی اس کے بارے میں سنا، پڑھایااس کاوائرل ویڈیو دیکھا، اس کی مذمت کی اورٹیچر کے خلاف کارروائی کی مانگ کی ۔متعلقہ ٹیچر کے علاوہ کسی بھی سماجی ، سیاسی اور مذہبی شخصیت نے اس کی تاویل نہیں کی ،سبھی کا سر شرم سے جھک گیا ۔نفرت وتعصب اورمذہبی دشمنی ابھی سیاست تک محدود تھی اورخاص سیاسی مقاصد کیلئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں ،لیکن مظفر نگر کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس زہر کا اثر اب تعلیمی اداروں پر پڑرہا ہے ۔ پہلے مظفر نگر کے اسکول میں پھر جموں وکشمیر کے کٹھوعہ کے اسکول میں جس طرح بچوں کی پٹائی کی گئی ، وہ اسی نفرت وتعصب کی دین ہے۔ معصوم بچے تو مذہب کے بارے میں ٹھیک سے جانتے بھی نہیں ہیں ۔وہ جب اس طرح کی حرکتیں اپنے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں،تو ان کا دماغ بھی اسی طرح چلنے لگتاہے اوروہ لوگوں وسماج کے بارے میں غلط نظریہ قائم کرنے لگتے ہیں ۔ بعدمیں ان کا ذہن پوری طرح مسموم ہوجاتاہے ۔سماج میں برائیاں اسی طرح پھیلتی ہیں۔ ابتدامیں ان پر توجہ نہیں دی جاتی، بعد میں توجہ دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔مظفر نگر کے اسکول میں ٹیچر نے اقلیتی کمیونٹی کے بچہ کو محض ہوم ورک نہ کرنے پر دوسرے مذہب کے ہم سبق یا ہم جماعت بچوں سے نہ صرف تھپڑ مروائے بلکہ مظلوم بچے کے خلاف قابل اعتراض باتیں بھی کہیں ۔جس کی ضرورت نہیں تھی ،ٹیچردوسرے بچوں سے صرف تھپڑ لگواتیں، تو کوئی بات نہیں ہوتی، ایساعا م طور پر پرائمری اسکولوں اور مکاتب میں ہوتا ہے اورجسمانی طور پر معذور اساتذہ کرتے ہیں یا بلیک بور ڈ پر مذہبی نعرہ لکھنے پر بچے کو سمجھا دیتے ہیں،لیکن ٹیچر ہی اس کو مذہبی رنگ دے یابچہ کو اتنا مارے کہ اسپتال میں داخل کرنے کی نوبت آجائے تو خطرناک ہے ۔
اچھا ہوا کہ پولیس نے فوری کارروائی کردی ، ورنہ اس پر سیاست ہوتی تو بلاوجہ ماحول خراب ہوتا۔بتایا جاتاہے کہ انتظامیہ نے مظفر نگر اورکٹھوعہ کے واقعات کا فوراً نوٹس لیا ۔کٹھوعہ کا اسکول تو سرکاری ہے ، اس لئے اس کی منظوری ردہوگی یا نہیں ، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن مظفر نگر کااسکول پرائیوٹ ہے، اس کے بارے میں خبر آرہی ہے کہ اس کارجسٹریشن ردہوگا اوراس کی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ محکمہ تعلیم نے اسکول کو نوٹس بھیجا ہے اورجانچ پوری ہونے تک اسکول کو بند کرنے کاحکم صادر کیاہے ۔سرکار کی کارروائی اپنی جگہ ہے اوروہ ہورہی ہے ۔ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ نفرت کی سیاست ملک کوکہاں لے جارہی ہے کہ جن اسکولوں سے ملک کا مستقبل تیار ہوتا ہے ، وہ بھی اب نفرت وتعصب سے محفوظ نہیں رہے ۔اساتذہ تک بچوں کے معصوم ذہنوں میں زہر گھول رہے ہیں اوران کے ساتھ مذہب اورذات کی بنیاد پر سلوک کررہے ہیں ، بلکہ مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لئے ان کی توہین بھی کررہے ہیں ۔مظفر نگر اورکٹھوعہ کے اسکولوں کے معاملے ایک ہی نوعیت اورسوچ کے ہیں اوران سے سماج اور سیاست میں بے چینی محسوس کی جارہی ہے ۔ان کو نہ تو معمولی کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتاہے اورنہ تاویل کرکے ان کیلئے گنجائش نکالی جاسکتی ہے ،جب پورا معاملہ مذہبی نقطہ نظر سے جڑا ہے ، تو ہرکوئی اسی زاویہ سے دیکھ رہا ہے ۔انتظامیہ کی کارروائی بھی بتاتی ہے کہ وہ ایسی حرکتوں کو غلط مان رہی ہے ، تبھی کارروائی کررہی ہے ۔
بچے اگر ایسی حرکتیں کرتے ہیںتو وقتی طور پر ان کی تاویل کرسکتے ہیں ، لیکن وہاں بھی ہمیں سنجیدگی سوچنا ہوگا کہ وہ غلط باتیں کہاں سے اورکس ماحو ل میں سیکھ رہے ہیں، اساتذہ اس قدر کیسے گرسکتے ہیں ؟مظفر نگر کے اسکول کی ٹیچر بھلے ہی واقعہ کو معمولی بتارہی ہیں ، لیکن یہ معمولی واقعہ بالکل نہیں ہے ۔اگر معمولی ہوتاتو غلطی کیلئے اس کی معافی قابل قبول ہوتی ۔نفرتی سوچ اورایجنڈارکھنے والے اور اسی کے تحت تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے، اگراسکول ایسے اساتذہ کے خلاف کاررروائی نہیں کرتے ، تو اسکولوں کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہئے، تبھی ملک کا مستقبل اساتذہ کے ہاتھوں میں محفوظ رہے گا، ورنہ اساتذہ بچوں کو کسی لائق نہیں چھوڑیںگے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہندوستان کو ٹیچر ملک کہا جاتاہے ،اس لئے ایسے غلط لوگوں کیلئے تعلیمی اداروں میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS