ہاتھرس ضلع میں ہوئی عصمت دری اور قتل معاملے کے خلاف یوپی ہی نہیں بلکہ ملک کے کئی حصوں میں احتجاج شروع ہوگیا ہے۔اس دوران ضلع ہاتھرس کے بلگاری گاؤں کو عارضی قلعہ میں تبدیل کردیا گیا ہے، بشمول گاؤں کے باشندوں کے کسی کو بھی متاثرہ کے کنبے سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔
جمعہ کو پولیس نے بلگاری گاؤں کے نزدیک گاؤں میں متعدد افراد کو تلاش کر کے حراست میں لیا، جو متاثرہ کے گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ متاثرہ کے والد نے الزام لگایا کہ ضلع انتظامیہ ان پر میڈیا کو دئیے گئے بیان کو تبدیل کرنے کا دباؤ ڈال رہی ہے۔انہوں نے ضلع انتظامیہ پر سخت نتائج جھیلنے کی دھمکی دینے کا بھی الزام لگایا۔متاثرہ کے والد کے مطابق’ہم ضلع انتظامیہ سے عاجز آچکے ہیں۔وہ ہم پر لگاتار اس بات کیلئے دباؤ بنا رہے ہیں کہ ہم میڈیا سے نہ ملیں، میڈیا کو دئیے گئے اپنے بیان کو تبدیل کردیں۔والد نے پولیس پر ایک سادے کاغذ پر زبردستی دستخط لینے کا بھی الزام لگایا۔وہیں اس پورے معاملے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی اور ہاتھرس ضلع انتظامیہ کے ساتھ متاثرہ کنبے کو 12؍اکتوبر کو عدالت میں طلب کیا ہے ۔اس ضمن میں کورٹ کا احساس تھا کہ اگر ریاستی حکومت کی جانب سے کچھ تساہلی پائی گئی تو وہ اعلیٰ سطحی جانچ کا حکم دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرے گا۔اس درمیان مرکزی وزیر رام مادھو 3؍اکتوبر کو لکھنؤپہنچ رہے ہیں، جہاں وہ گورنر آنندی بین پٹیل اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ہاتھرس واقعہ کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔
وہیں دوسری جانب کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے متاثرہ کے والد کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے، جس میں وہ یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ’وہ پولیس تفتیش سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کا پریوار پورے واقعہ کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں سی بی آئی جانچ چاہتا ہے۔ ویڈیو میں والد یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ہمیں پولیس نے گھر میں نظر بند کررکھا ہے اور بشمول میڈیا کسی سے ملنے کی کوئی اجازت نہیں ہے‘۔ اس سے قبل ہاتھرس کے ڈی ایم پروین کمار لکشر کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش میں تھا، جس میں متاثرہ کے والد کو غیر قانونی آخری رسوم کی ادائیگی کے معاملے میں اپنا بیان تبدیل کرنے کیلئے دھمکی اور زبردستی کرتے نظر آرہے ہیں۔ایک دیگر ویڈیو میں متاثرہ کنبے کی ایک خاتون کہتی نظر آرہی ہے کہ ڈی ایم انہیں اپنا بیان تبدیل کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں اور وہ خائف ہیں کہ اگر انہوں نے پولیس کے کہنے کے مطابق کام نہیں کیا تو پولیس انہیں گاؤں میں رہنے کی اجازت نہیں دے گی۔لیکن علی گڑھ سرکل کے انسپکٹر جنرل آف پولیس(آئی جی) پیوش موردیا نے جمعہ کو دعویٰ کیا کہ حالات قابو میں تھے اور شرپسند عناصر کو روکنے کیلئے، جو نظم ونسق کیلئے مسائل کھڑا کرنے کی کوشش کررہے تھے، انہیں باز رکھنے کیلئے ہاتھرس ضلع میں دفعہ 144کا نفاذ کیا گیا ہے۔
جنتر منتر پر لوگوں کی بھیڑ امڈی, قصورواروں کیلئے سخت سزا کا مطالبہ
نئی دہلی(اظہار الحسن/ ایس این بی)
ہاتھرس جنسی زیادتی کے معاملے پر حالات مزید کشیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ ہاتھرس سے دہلی تک لوگوں میں اشتعال ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں معاملے میں اترپردیش کی یوگی حکومت اور یوپی پولیس کے رویے کو لے کر سوال اٹھارہی ہیں۔اس دوران اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں ہوئی عصمت دری اور قتل معاملے کے خلاف جنتر منتر پر زبردست مظاہرہ کیا گیا۔اس مظاہرے میں عام آدمی پارٹی اور بھیم آرمی سمیت بایاں محاذ کی پارٹیوں کے کئی لیڈروں نے حصہ لیا۔جنتر منتر پر مظاہرہ کرنے والے مظاہرین کا جوش اور جنون ایسا تھا کہ انہوں نے سوشل ڈسٹنسنگ کی پرواہ نہیں کی اور تختیاں لے کر سیکڑوں لوگ جنتر منتر پر مظاہرہ کرنے اترے۔وہیں اس سے پہلے انڈیا گیٹ پر ہونے والے مظاہرے کو روکے جانے کے بعد وہاں کے مظاہرین بھی جنتر منر پر آگئے تھے،کیونکہ انڈیا گیٹ کے آس پاس دفعہ 144لگا دی گئی تھی۔
اس مظاہرے میں شامل دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے کہا کہ اترپردیش سرکار سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ جو مجرم ہیں ،ان لوگوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے،ان کو جلد سے جلد پھانسی دلوائی جائے۔اتنی سخت سزا ملنی چاہئے کہ مستقبل میں کوئی ایسی ہمت نہ کرسکے۔اروند کجریوال نے مزید کہا کہ ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ ہاتھرس معاملے میں ملزمان کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اس معاملے میں کسی طرح کی سیاست بھی نہیں ہونی چاہئے۔ دہلی سرکار کے وزیر خاتون و سماجی بہبود راجندر پال گوتم نے کہا کہ ہر 13منٹ میں دلتوں کے ساتھ جرائم ہورہے ہیں، اترپردیش میں ہی ایک کے بعد ایک کئی عصمت دری کی وارداتیںہوئی ہیں۔اس موقع پر سیتا رام یچوری نے کہا کہ یو پی سرکار کو حکومت میں بنے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ہماری مانگ ہے کہ انصاف ہونا چاہئے۔بھیم آرمی کے چیف چندر شیکھر آزاد نے جنتر منتر سے اعلان کیا کہ وہ ہاتھرس جا کررہیں گے۔ (باقی ہریانہ/پنجاب پر)
انہوں نے کہا کہ میں ہاتھرس ضرور جائوں گا۔یو پی کے وزیر اعلیٰ جب تک استعفیٰ نہیں دیتے اور جب تک انصاف نہیں ہوتا ،تب تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔میں سپریم کورٹ سے اس معاملے میں نوٹس لینے کی گذارش کرتا ہوں۔سی پی ایم جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری اور سی پی آئی لیڈر ڈی راجا بھی مظاہرے میں شرکت کرنے پہنچے۔جنتر منتر پر مظاہرے میں آپ لیڈر سوربھ بھاردواج ،آتشی، جگنیش میواڑی، بالی ووڈ اداکارہ سورا بھاشکر اور بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد بھی پہنچے۔اسی کے ساتھ دہلی میں کئی مقامات پر مظاہرے ہوئے ۔اس دوران جامعہ نگر میں ایس پی یوتھ لیڈر شارق خان کی قیادت میں زبر دست مظاہرہ کیا گیا۔
گاندھی جی کی سمادھی راج گھاٹ سے لے کر جنتر منتر تک کئی تنظیموں نے ہاتھرس معاملے کے خلاف سڑک پر اتر کر انصاف کی مانگ کی ۔اس میں سماجی خدمت گار نیہا بھارتی اور یوتھ کانگریس کا مظاہرہ بھی شامل رہا۔
دوسری طرف متاثرہ کے کنبہ سے ملنے جارہے ترنمول کانگریس کے کچھ اراکین پارلیمان کو یوپی پولیس نے روک دیا۔ خبر ہے کہ ان کے ساتھ بھی بدسلوکی کی گئی۔ ترنمول نے ایک بیان جاری کرکے بتایا ہے کہ اس کے کچھ اراکین پارلیمان کو یوپی پولیس نے متاثرہ کے گاؤں سے ڈیڑھ کلو میٹر پہلے ہی روک لیا۔ ترنمول اراکین کا یہ گروپ 200 کلو میٹر دور دہلی سے آیا تھا۔ ان میں ڈیرک اوبرائن ، کاکولی گھوش دستیدار، پتریما منڈل اور سابق رکن پارلیمان ممتا ٹھاکر شامل ہیں۔ یہ رہنما دہلی سے ہاتھرس متاثرہ کے کنبہ سے ملنے جارہے تھے۔