کیا عمر عبداللہ بھاجپا کے نئے گیم پلان کا حصہ بن گئے ہیں؟انتخابی سیاست سے اظہارِ لاتعلقی کی اصل کہانی کیا ہے؟

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    اب جبکہ سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائبِ صدر عمر عبداللہ نے جموں کشمیر کے یونین ٹریٹری رہتے ہوئے انتخابی سیاست میں نہ آںے کا اعلان کیا ہے بھاجپا نے پھر کہا ہے کہ سابق ریاست کا درجہ ’’مناسب وقت‘‘ پر بحال کیا جائے گا۔ اسکے ساتھ ہی جموں کشمیر میں یہ قیاس کیا جانے لگا ہے کہ ہو نہ ہو عمر عبداللہ کے انتخابات سے ’’اظہارِ لاتعلقی‘‘ سے لیکر بھاجپا کے ’’مناسب وقت کے انتظار‘‘ تک سب کچھ ایک ہی گیم پلان کا حصہ ہے۔
    گئے سال  5 اگست کو جموں کشمیر میں دفعہ 370کی تنسیخ اور اس ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کئے جانے کے تاریخی واقعہ کی پہلی سالگرہ سے چند روز قبل عمر عبداللہ نے پہلا مفصل بیان دیا ہے۔ ایک انگریزی روزنامہ کیلئے لکھے ہوئے اپنے مضمون میں عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کی اسمبلی کبھی سب سے ’’طاقتور‘‘ تھی اور آج یہی اسمبلی سب سے زیادہ کمزور کر کے رکھ دی گئی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ کوئی دھمکی تو نہیں دے رہے ہیں اور نہ ہی یہ کوئی ’’بلیک میلنگ‘‘ ہے تاہم وہ تب تک انتخابی سیاست میں شامل نہیں ہونگے کہ جب تک نہ جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس کیا جائے ۔
    5 اگست  2019 کے واقعہ سے قبل جموں کشمیر میں سبھی علیٰحدگی پسند قائدین اور ہزاروں علیٰحدگی پسند کارکنوں کے ساتھ ساتھ فاروق عبداللہ،عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی شکل میں تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت’’مین اسٹریم ‘‘ کے سینکڑوں لیڈروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔عمر اور انکے والد کو قریب نصف سال کی جیل اور چند ہفتوں کی گھریلو نظر بندی کے بعد چھوڑ تو دیا گیا ہے تاہم محبوبہ مفتی ہنوز اپنی رہائش گاہ کے اندر قید ہیں۔ عمر عبداللہ یا انکے والد نے جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی کوئی بڑا بیان دینے سے احتراز کیا ہوا ہے یہاں تک کہ وہ ماہ بھر قبل دلی چلے گئے ہیں جہاں سے عمر عبداللہ نے اب ایک اخباری مضمون کے ذرئعہ پورے معاملے پر بات کی ہے۔عمر عبداللہ نے جہاں جموں کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کا زوردار مطالبہ کیا ہے وہیں انہوں نے دفعہ  370 بحالی پر اتنا زور نہیں دیا ہے۔
    عمر عبداللہ کے انتخابی سیاست سے ’’اظہارِ لاتعلقی‘‘ کے حوالے سے بھاجپا لیڈر ایویناش رائے کھنہ نے ’’نہایت اعتماد کے ساتھ‘‘ کہا ہے کہ ’’مناسب وقت آنے پر‘‘ جموں کشمیر کو دوبارہ ریاست بنایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بھاجپا اس حوالے سے وعدہ بند ہے۔ اس سے قبل بھاجپا کے جنرل سکریٹری اور جموں کشمیر میں پارٹی کی سرگرمیوں کے ہدایتکار رام مادھو نے بھی اسی طرح کا بیان دیا ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ بھاجپا عید کے بعد جموں کشمیر میں احتجاجی مظاہرے بھی کرنے جارہی ہے جنکے دوران جموں کشمیر کیلئے ریاستی درجے کی بحالی کا مطالبہ کیا جائے گا۔
    مبصرین کا کہنا ہے کہ مہینوں بلکہ سال بھر تک چُپ سادھے رہنے کے بعد عمر عبداللہ کا تبھی ریاست کے درجہ کی بحالی کا مطالبہ کرنا کہ جب بھاجپا ایسے بیانات دینے لگی ہے کچھ ’’خاص‘‘ ہوسکتا ہے۔ ایسا سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ چونکہ 5  اگست کے واقعہ نے جموں کشمیر، باالخصوص وادیٔ کشمیر، میں مین اسٹریم کی سیاست کا امکان تک ختم کردیا ہے لہٰذا ہو نہ ہو سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کیلئے جموں کشمیر کو واپس ریاست بنانے کی باتیں کی جا رہی ہوں۔ اس سلسلے میں کوئی بھی نامور مبصر کھل کر بات کرنے پر آمادہ تو نہیں ہے تاہم ان میں سے کئی ایک نے مختلف الفاظ میں یہ مساوی تجزیہ کیا ’’چونکہ دلی والوں نے مقامی سیاستدانوں کی سیاست کا امکان تک ختم کردیا ہے ،ہوسکتا ہے کہ عمر عبداللہ کے ساتھ یہ بات کی گئی ہو کہ وہ جموں کشمیر کو یونین ٹریٹری سے ریاست بنائے جانے تک انتخابات میں شریک نہ ہونے کی بات کریں،اسکے ساتھ ساتھ خود بھاجپا بھی جموں کشمیر کیلئے ریاستی درجے کی بحالی کا مطالبہ کرنے لگے تاکہ جموں کشمیر کے عوام سیاسی سرگرمیوں میں پھر دلچسپی لینے لگے‘‘۔ ان مبصرین کے مطابق یہ بات ممکن ہے کہ بھاجپا نے کچھ وقت تک ’’مہم چلا کر‘‘ جموں کشمیر کو پھر سے ریاست بنانے سے یہاں اپنی مقبولیت بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہو۔ قابلِ ذخر ہے کہ جموں کشمیر میں بھاجپا حامی صوبہ جموں میں لوگ بڑے ناراض ہیں اور وہ بھی ریاست کا درجہ چھین لئے جانے اور اب غیر ریاستی لوگوں کو یہاں کی باشندگی کی اسناد دئے جانے کے جیسے معاملات کو لیکر بھاجپا سے نالان ہیں۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS