قدرت نے اپنی تخلیقات میں زندگی اور آکسیجن کو ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم رکھا ہے۔ انسان جتنی سانس اپنے اندر کھینچتا ہے اس میں آکسیجن کا تناسب 21 سے 23فیصد تک ہوتا ہے۔انسانی جسم کو فی منٹ 6 سے 8لیٹراور روزانہ11ہزار لیٹر آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے۔اس لازمی گیس آکسیجن کا وافر ذخیرہ پیدا کرنے کیلئے قدرت نے دنیا کو اس کے وسائل اور ذرائع سے مزین کررکھا ہے۔ فضامیںجتنی ہوا ہے اس میں 31فیصد تک آکسیجن موجود ہے۔ایک تناور درخت 260پائونڈ سالانہ آکسیجن گیس خارج کرتا ہے۔ دو بڑے درخت چار افراد پر مشتمل خاندان کو پوری آکسیجن مہیا کر سکتے ہیں۔ پیپل کا درخت اور تلسی کے پودے تو رات اور دن دونوں وقت آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں۔اشوکا اور نیم کے درخت بھی22-22گھنٹے آکسیجن مہیا کررہے ہیں۔ ’پروکلو رو کاکس‘ (Prochlorococcus) نامی ایک ننھی سی حیات بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ آکسیجن پیدا کرتی ہے۔ سمندری حیات اور نباتات بھی دنیا بھر کا 50فیصد تک آکسیجن پیدا کرر ہی ہیں۔
قدرت نے اتنی وافرآکسیجن عطا کی ہے کہ ہم نے کبھی اسے ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، پھر کیا وجہ ہے کہ اسی گیس کی کمی کی وجہ سے آج ابن آدم تڑپ رہاہے۔آج آکسیجن گیس کی اتنی شدید کمی کیوں ہوگئی ہے کہ انسان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھورہاہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرت کی تخلیق کردہ تمام زندہ حیات اب بھی فطرت کے مطابق مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اپنی زندگی بسرکررہی ہیںلیکن انسان نے فطرت کی مخالفت شروع کردی اوراس سے مختلف دھارے میں چلنا شروع کردیااوراسے فتح و سر کرنے کی کوشش شرو ع کردی۔ابن آدم کی یہ کوشش فطرت کے رجحان کے خلاف ہے اور ہر طرح کے نقصانات کو دعوت دے رہی ہے۔سب جانتے ہیں کہ درخت آکسیجن کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ درخت اپنا کھانا تیار کرنے کیلئے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور آکسیجن جاری کرتا ہے جو ماحول کو آکسیجن سے مالا مال بناتا ہے اور جانوروں کو زندہ رکھتا ہے۔ لیکن بغیر سوچے سمجھے ان ہی درختوں کی بے رحمانہ کٹائی ہورہی ہے، جنگلات صاف کیے جارہے ہیں جو آکسیجن کی کمی کا سبب بن رہاہے۔ہوا اور پانی آلودہ ہورہے ہیں۔ قدرتی وسائل کا بے رحمانہ استعمال بلکہ استحصال کرکے انسان نے زمین کے ساتھ ساتھ فضاکو بھی آلودہ کردیا ہے جس کی وجہ سے دنیا کا فطری توازن بگڑ رہاہے اور طرح طرح کے نقصانات اور مصائب نازل ہورہے ہیں۔انسانی حیات کیلئے واحد لازم بنیادی گیس آکسیجن بھی کم ہوتی جارہی ہے۔
اب تک یہ تحقیق نہیں ہوپائی ہے کہ کورونا وائرس انسانی خطا کی تخلیق ہے یا قدر ت کی طرف سے بطور عذاب انسانیت پر نازل ہوا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس انسانی حیات کیلئے چیلنج بن کر موجود ہے اور انسانوں کو لاشوں میں بدل رہا ہے۔ ہندوستان میں اس وائرس کے مریضوں کوآکسیجن کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس انسانی جسم میں پناہ لے کر انسانی پھیپھڑوں کو متاثر کررہاہے۔لیکن پھیپھڑوں کے متاثر ہوجانے سے یہ صحیح طریقے سے اپنا کام نہیں کررہے ہیں اور آکسیجن کی سطح کم ہوتی جارہی ہے۔اس لیے اس کے مریضوں کو آکسیجن کی زیادہ ضرورت پڑرہی ہے۔قدرت نے ہوا میں آکسیجن کی مقدار کو متوازن رکھنے کا ایک نظام بنایا ہواہے لیکن انسان آلودگی کے ذریعے اسے بھی برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ہم اپنی نابکاریو ں کے طفیل اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ قدرت کا یہ عظیم الشان عطیہ بھی ہم سے اب منھ موڑنے لگا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ آکسیجن گیس بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسپتالوں میں بھی اس کی ضرورت شاذو نادر ہی پڑتی ہے اور چونکہ اس کاذخیرہ کرنے کیلئے کنٹینر لازم ہوتا ہے، ا س لیے آکسیجن کی پیداوار بڑھانے کے نظام کوبھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔
لیکن کورونا وائرس کے سبب جس طرح انسانی زندگی کو مصنوعی آکسیجن کی ضرورت پڑرہی ہے ہمیں ا ب یہ احساس ہوجانا چاہیے کہ ہم نے قدرت کے ساتھ نہیں بلکہ انسانی حیات کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ سلوک کیا ہے۔کورونا وائرس انسانی جسم میں پناہ لے کر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔اسی طرح ہم نے اس زمین پر پناہ لے کر بڑے پیمانہ پر جنگلات اور درخت کاٹ کے زمین کا پھیپھڑہ متاثر کیا ہے۔دیکھاجائے تو قدرت کی بنائی اس حسین زمین اوراس کی فضا کیلئے نادانستہ طور پر ہم وائرس ہی ثابت ہورہے ہیں۔یہ فطری اصول ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔اگر ہمیں اس زمین اور دنیا کو انسانوں کی رہائش کیلئے موزوں رکھنا ہے تو فطرت سے تصادم ترک کرکے اس کے مظاہر کی نہ صرف حفاظت بلکہ ان کی افزائش بھی کرنی ہوگی۔نئے سرے سے پیڑ پودے اور جنگلات لگاکر فطری توازن برقرار رکھناہوگا تاکہ انسانی حیات آکسیجن کی کمی سے دوچار نہ ہو۔
[email protected]
کیا زمین کیلئے ’وائرس ‘ بن گیا انسان؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS