رمضان المبارک اور برادران وطن

0

محمد صابر حسین ندوی

اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دوہرے سلوک، عصبیت اور اسلام مخالف سازشوں کا ایک مرجع یہ بھی ہے کہ ہم نے سیرت طیبہ کا کماحقہ تعارف نہیں کروایا، آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کی رحمدلی، ہمدردی، موانست اور انسانیت کو مجروح کیا جاتا ہے۔ مستشرقین، مغربی مفکرین کا زخم ابھی گہرا ہی تھا کہ وہ قومیں جن کی تاریخ دیوسیت، خباثت اور شیطانیت سے بھری ہوئی ہیں وہ بھی ہمارے پیارے نبی (فداہ روحی) پر چھینٹاکشی کرنے لگے ہیں۔ ان میں ایک بڑا دخل سیاسی داؤ پیچ کا ہے تو وہیں آپ کی ذات سے ناواقفیت بھی بڑے محرکات میں سے ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی شخص نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت سے واقف ہوجائے، آپ کی بایوگرافی سے روشناس ہوجائے تو وہ آپ سے نفرت کر ہی نہیں سکتا۔ مکہ مکرمہ میں آپ کے دشمنوں کی کمی نہ تھی لیکن کوئی ایسا نہ تھا جو آپ کی ذات پر حملہ کرتا۔ وہ (نعوذبااللہ) ساحر، مجنون اور دوسرے برے القابات استعمال کر لیتے مگر وہ باتیں ہرگز نہیں کہتے جن سے آپ کی شخصیت مجروح ہوتی ہو بلکہ متعدد مواقع پر وہ خود آپ کے عالی اخلاق، اقدار، انسان نوازی، غم خواری، صلہ رحمی اور انسانیت نوازی کی تعریف کرتے۔ ابوسفیان ؓکا واقعہ مشہور ہے جب انہوں نے اسلام سے قبل ہرقل کے سامنے اپنی لاکھ دشمنی کے باوجود آپ کی شخصیت، عمدہ سلوک اور خلوص کی تعریف کی تھی۔ یہ صرف آپ کی زندگی کی ہی بات نہیں ہے بلکہ پوری تاریخ گواہ ہے کہ جب آپؐ کے تعلق سے صاف صاف باتیں بتائی گئیں تو معاندین نے توبہ کرلی۔ مغربی مفکرین میں ایسے لاتعداد افراد موجود ہیں جن کا کام ہی اسلام اور رسول خدا کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا تھا لیکن جوں جوں انہوں نے سوانح سردار دوعالم سے لگاؤ بڑھایا وہ مسلمان ہوگئے یا پھر اس قدر نرم دل ہوگئے کہ اسلام کے خلاف اٹھی تلوار کم از کم میان میں ڈال لی اور آپ کو انسانی تاریخ کا سب سے عظیم انسان قرار دیا۔
خود ہندوستان میں ایک عرصے تک یہ رواج نہیں رہا کہ وہ نبی اکرمؐ کی ذات کو نشانہ بنائیں بلکہ آپ کے مقلدین، صوفیاء ، اولیاء اور خدا کے دوسرے نیک بندوں کی ہمیشہ سربلندی رہی، شاعروں میں ایک تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو ہندو تھے یا غیر مسلم تھے لیکن آپؐ کی شان میں خوب قصیدے پڑھے مگر افسوس سیاست اور اس سے بڑھ کر ہندو راشٹر کے جرثومے نے آپ کی ذات کو نشانہ بنا کر پوری ہندو کمیونٹی کو اکٹھا کرنا چاہا، مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈال کر انہیں سربلندی دینے اور جمہوری ملک کو ایک سوچ، ایک تہذیب کے جھنڈے تلے لانا چاہا۔اس دوران مسلمان بجائے یہ کہ وہ اللہ کے نبیؐ کا تعارف کرواتے، غلط فہمیاں دور کرتے وہ اپنی حساسیت، جذباتیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ نتیجتاً وہ غلط اسلام اور عاشق رسول کی حیثیت سے شہرہ پانے لگے۔ کیا خوب ہو کہ رمضان المبارک کو ایک تربیتی کیمپ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس موسم بہار میں اللہ کے نبی علیہ السلام کی زندگی، کارنامے، شخصیت اور بلندی کے بارے میں بتایا جائے، انہیں یہ باور کرایا جائے کہ جس شخصیت کو وہ نشانہ بناتے ہیں وہ تو رحمت بالائے رحمت والا ہے، وہ تو رحمۃ اللعالمین ہے، انسانیت کی ہر شاخ اسی سے پھوٹتی ہے، اسی نے گرتوں کو تھاما ہے، بہکتے اور بھٹکتے لوگوں کو راہ راست پر لگایا ہے، انسانوں کی غلامی سے نکال کر ایک اللہ کی غلامی اور بندگی پر آمادہ کیا ہے اور اسی کی برکت ہے کہ رمضان المبارک میں لوگ صبر، ضبط، ڈسپلن اور انسانیت کا درس سیکھتے ہیں، وہ بھوک پیاس کی شدت برداشت کر کے غریبوں، فقیروں اور محتاجوں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کی سوانح گھر گھر پہنچائی جائے، جو بھی وسائل مہیا ہوں انہیں استعمال کیا جائے اور لوگوں کو نبی رحمت کے سایہ دار درخت سے استفادہ کا موقع دیا جائے۔ uuu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS