پروفیسر آفاق حسین صدیقی
آزادی سے قبل غیرمنقسم ہندوستان کی خودمختار ریاستوں اور آزادی کے بعد کے منقسم ہندوستان کے طول و عرض میں سرزمین بھوپال کو جو مقبولیت اور امتیازی مقام حاصل رہا ہے، اس میں یہاں کی ثقافتی، تہذیبی، اخلاقی اور علمی و ادبی قدروں کا بڑا حصّہ رہا ہے اور یہ تمام قدریں رہینِ منت ہیں اُن چند ممتاز ہستیوں کی جنھوں نے اپنی تمام زندگی ان اقدار کی آبیاری میں گزاری، ان ممتاز ہستیوں میں ایک نام حکیم سیّد قمرالحسن صاحب مرحوم کا بھی شامل ہے۔ حکیم سید قمرالحسن صاحب مرحوم ایک ہمہ صفت شخصیت کے مالک اور بیک وقت ایک حاذق طبیب، معتبر صحافی، صاحبِ فکر ادیب، صاحبِ طرز انشاء پرداز، بے لاگ تبصرہ نگار اور بے مثال مقرر تھے۔
بلندوبالا اکہرا جسم، سرخ سفید رنگ، اُبھری ہوئی کشادہ پیشانی، عقابی آنکھیں، ستواں ناک، متبسم ہونٹ، کلین شیو، سرپر انگریزی وضع کے چھوٹے چھوٹے بال، گونجیلی آواز، شائستہ لب ولہجہ، بیان میں شگفتگی، لباس میں نفاست، بذلہ سنج، خوش مزاج، خوش اخلاق، خوش اطوار، خوش طبع اور خوش فکر، خلوص، محبت، مروّت کا پیکر، شرافت، نجابت، ذہانت و ذکاوت اور فہم و فراست کا نمونہ۔
وہ ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جس کے بیشتر افراد نے زندگی گزارنے کے لیے طبابت کا پیشہ اختیار کیا تھا کہ اس پیشہ میں خاندان کی کفالت اور خدمت خلق دونوں کی ذمہ داریاں بحسن وخوبی پوری ہوجاتی ہیں۔ حکیم صاحب کے جدامجد سید محمد ہاشم خاں المعروف حکیم علوی خاں صاحب اپنے زمانے کے مشہور ماہر طبیب تھے، وہ 1669 میں شیراز میں پیدا ہوئے تھے اور1700 میں ہندوستان آئے تھے، انھوں نے 1749 میں دہلی میں وفات پائی۔ حکیم صاحب کے جداعلیٰ حکیم سید حسین دہلی سے رامپور آگئے تھے، ان کے صاحبزادے حکیم سید حسن عہد سکندری میں رام پور سے بھوپال آئے اور سرکار میں ملازمت اختیار کی اور نواب سکندر جہاں بیگم کے معالج مقرر ہوئے۔ ایک مدت کے بعد انھوں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور بھوپال کے قرب و جوار کی ریاستوں میں رہ کر طبی خدمات انجام دیں۔ حکیم سیّدقمرالحسن صاحب حکیم سید حسن صاحب کے صاحبزادے حکیم سیّد نورالحسن کے فرزند اصغر تھے، وہ 1909 میں رائسین میں پیدا ہوئے تھے۔ حکیم سید نورالحسن صاحب کے فرزند اکبر مشہور زمانہ طبیب حکیم سیّد ضیاء الحسن صاحب مرحوم تھے۔ حکیم قمرالحسن صاحب نے ابتدائی درجات کی تعلیم رائسین میں رہ کر والد کی زیرنگرانی حاصل کی، اس کے بعد بھوپال کے مشہور الگزنڈا ہائی اسکول میں داخلہ حاصل کیا۔ یہاں سے مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ اس کے بعد اورینٹل کالج لاہور سے 1930 میں منشی فاضل کا امتحان پاس کیا، 1934 میں دوبارہ لاہور جاکر پنجاب یونیورسٹی سے ’’زبدۃ الحکماء‘‘ کی سند حاصل کی۔ وہاں سے واپس آکر آصفیہ طبیہ کالج بھوپال میں آنریری لیکچرر مقرر ہوئے۔ یہاں انھیں شفاء الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی اور شمس الاطباء حکیم محمد حسن قریشی جیسے نامور اور صاحبانِ تصانیف اطباء سے استفادہ حاصل کرنے کے مواقع بھی میسر آئے۔ طبیہ کالج میں علم طب کی تعلیمی خدمات انجام دینے کے بعد کچھ مدت تک انھوں نے عم محترم حکیم اولاد حسین صاحب کے ساتھ مطب بھی کیا، اسی کے بعد وہ اُجین چلے گئے اور تقریباً دو سال تک وہاں مطب کرتے رہے۔ پھر واپس بھوپال آگئے۔
حکیم صاحب کی عمر عزیز کا یہ زمانہ ہندوستان میں برٹش سامراج کے خلاف سیاسی تحریکات کے فروغ کا زمانہ تھا تو ریاست بھوپال میں شخصی حکومت سے حقوق اور اختیارات حاصل کرنے کی غرض سے احتجاجی سرگرمیوں کے عروج کا زمانہ بھی تھا۔ سعیداللہ خاں رزمی، قدوس صہبائی اور ابوسعیدبزمی جیسے تعلیم یافتہ نوجوان اگر ایک طرف اپنی تحریروں اور تقاریر سے عوام میں بیداری پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل تھے تو ان کے ساتھ ہی خان شاکر علی خاں، لطف اللہ خاں نظمی، طرزی مشرقی اور سیّد ظہور ہاشمی وغیرہ جیسے پُرجوش نوجوان اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں سے عوامی تحریکات کو جوش و ولولہ عطا کررہے تھے۔ انجمن خدامِ وطن، بھوپال لیجسلیٹو کونسل اور بھوپال اسٹیٹ پیوپلز کانفرنس جیسی کئی انجمنیں وجود میں آچکی تھیں۔ حکیم صاحب کو چونکہ زمانۂ طالب علمی سے ہی قومی خدمات کے کاموں سے دلچسپی رہی تھی جس کے زیرِاثر انھوں نے بھوپال کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک جماعت ’’اتحاد و ترقی‘‘ کے نام سے تشکیل دی تھی، بعد میں حکومت کے اعتراض کرنے پر اس جماعت کا نام ’’اصلاح و ترقی‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس جماعت نے ایک ہفتہ روزہ پرچہ ’’پیام‘‘ بھی جاری کیا تھا۔ اس پرچہ میں شامل حکیم صاحب کی نگارشات نے بھوپال کی سیاست کو ایک صحت مند انداز اختیار کرنے کے سلسلہ میں بڑا حصّہ لیا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ 1936 میں مولانا سعیداللہ خاں رزمی کے ایماء پر جب سید حامد رضوی صاحب نے ’’بھوپال نیشنل لیگ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی انجمن کی تشکیل کی تو اراکین مجلس عاملہ میں حکیم سید قمرالحسن صاحب بھی شامل کیے گئے تھے۔ اسی دوران میں احباب کے اصرار پر انھوں نے دو دفعہ میونسپل کے انتخابات میں حصّہ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔
بھوپال کی ادبی تاریخ میں حکیم صاحب کے مقام و مرتبہ کا انحصار ان کی غیرمعمولی صحافتی خدمات پر ہے۔ ڈاکٹر سلیم حامد رضوی مرحوم نے ’’اردو ادب کی ترقی میں بھوپال کا حصّہ‘‘ میں ان کی صحافتی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
’’حکیم صاحب نے بھوپال میں سنجیدہ صحافت کی داغ بیل ڈالی اور عوام اور حکومت کے درمیان متوازن رابطہ قائم کیا‘‘۔(اردو ادب کی ترقی میں بھوپال کا حصّہ از ڈاکٹر سلیم حامد رضوی، ص: 454)
حکیم صاحب کی صحافتی خدمات کا باقاعدہ آغاز 1938 میں ہفت روزہ ’ندیم‘ کی ادارت سے ہوا تھا۔ ہفت روزہ ’ندیم‘ سرکاری پرچہ تھا جو 1936 میں محمودالحسن صاحب کی زیرِ ادارت جاری کیا گیا تھا۔ محمودالحسن جب ریاستی مسلم لیگ کے سکریٹری مقرر ہوکر بھوپال سے باہر چلے گئے تو ’ندیم‘ کی اشاعت کی ذمہ داری حکیم صاحب کے سپرد کردی گئی۔ حکیم کے زیرِادارت ’ندیم‘ ہفت روزہ سے روزنامہ ہوا اور ہر شام شائع ہونے لگا یعنی ’ندیم‘ بھوپال کا پہلا روزنامہ تھا۔
1938 میں روزنامہ ’ندیم‘ کی اشاعت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد سے حکیم صاحب کی وفات 14نومبر 1981 تک کا زمانہ تقریباً 43 سال کی مدت پر محیط ہے اس کے علاوہ تاریخ شاہد ہے کہ یہ سارا زمانہ ہندوستان میں سیاسی سطح کے ساتھ یہاں کی معاشرتی، تہذیبی، معاشی، اخلاقی اور نظریاتی سطحوں پر متواتر انقلابات اور مسلسل تبدیلیوں کا زمانہ رہا ہے۔ انضمام ریاست کے بعد کا زمانہ بھوپال میں اردو صحافت خصوصاً ’ندیم‘ کے لیے بڑی آزمائش کا دور تھا، ایک طرف تو ندیم سرکاری سرپرستی اور اعانت سے محروم ہوگیا، دوسری طرف کمشنر راج کی سختیوں نے عوام کی زندگی دوبھر کردی تھی۔ نامساعد حالات کا دور دورہ تھا۔ زبانوں پر پہرے تھے، احتجاج کرنے والے افراد خصوصاً اشتراکی نظریات سے متاثر افراد کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا جارہا تھا، ان حالات میں حکیم صاحب نے اپنی غیرمعمولی ذہنی و فکری صلاحیتوں مثلاً معاملہ فہمی، بیدارمغزی، دوراندیشی، ہوشمندی اور خوداعتمادی وغیرہ کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف اخبار کو زندہ رکھا بلکہ اسے عوامی معاملات اور مسائل کا سچا ترجمان بناکر ثابت کردیا کہ وہ صرف ایک ماہر طبیب ہی نہیں ماہر اور معتبر صحافی بھی ہیں۔
ریاست بھوپال میں چیف کمشنر راج ختم ہونے کے بعد اگرچہ ڈاکٹر شنکردیال شرما کی قیادت میں پہلی عوامی حکومت کی تشکیل عمل میں آگئی تھی، لیکن اس سے اردو صحافت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس دور میں اردو دشمنی کی فضا اور ہندی کے تسلط نے اردو صحافت کے لیے بہت سے مسائل پیدا کردیے، ان حالات میں حکیم صاحب نے ہمت نہیں ہاری، پورے استقلال، اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا اور اپنی سوجھ بوجھ سے ندیم کے لیے ایسی پالیسی وضع کی جو عوامی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنے دائرہ میں لیے ہوئے تھی۔ حکیم صاحب کی اس فلاح عام رفاہِ عام پالیسی کی بناء پر چند دن میں ہی ندیم صرف اخبار نہیں رہا بلکہ بقول سید محمود الحسینی ’’اخبار سے زیادہ ایک مکتب فکر بن گیا‘‘۔ (شخصیات، صفحہ:55)
حکیم صاحب کی طبابت، صحافت اور علم و ادب کے میدانوں میں انجام دی گئیں خدمات اگرچہ تاریخی نوعیت کی حامل ہیں لیکن اپنے زمانے میں حکیم صاحب کو جو قدرومنزلت حاصل رہی یا جو ہردلعزیزی نصیب ہوئی اس کا بڑا سبب ان کی شخصیت کی دلنشیں صفات تھیں۔ حکیم صاحب اپنے دور کے ایک بہترین انسان تھے۔ اسلامی طرزِ حیات کے اصولوں کی پابندی اور مشرقی تہذیب وتمدن کی اعلیٰ ترین قدروں کی پاسداری نے ان کی شخصیت کو بڑا پُرکشش، محترم اور پُروقار بنادیا تھا۔ جو بھی ان سے ملتا تھا ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔
حکیم صاحب کی شخصی صفات کا دائرہ اگرچہ بہت وسیع تھا لیکن راقم کے خیال میں انسان دوستی، حسن اخلاق اور حسن سلوک ان کی صفات میں بنیادی اہمیت رکھتی تھیں، انسان دوستی کے تحت ان کے ملنے والوں میں ہر طبقے، ہر فرقہ اور ہر قسم کے لوگ شامل تھے، چھوٹا ہو یا بڑا، ادنیٰ ہوکہ اعلیٰ، صاحب ثروت ہو یا مفلس ہو یا نادار، طالب علم ہوکہ استاد اپنے طرزِ عمل میں وہ کسی بھی قسم کی تفریق نہیں رکھتے تھے۔ جہاں تک ان کے حسن اخلاق کا تعلق ہے جو لوگ ان سے ملے ہیں یا ان کی محفلوں میں شریک ہوئے ہیں وہ آج بھی ان کے حسن اخلاق کے معترف ہیں۔ اس سلسلہ میں مشہور ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی کا وہ بیان قابل ذکر ہے جو انھوں نے حکیم صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کے بعد دیا تھا، اس میں انھوں نے کہا تھا:
’’آج ایسے شخص کو پانے کی خوشی سے مالامال ہوں جو خود ذہانت و طباعی و نکتہ رس ذہن، سلجھی ہوئی فکر اور شاداب دماغ کی دولت سے مالامال ہے اور ہر ملنے والے کو بے پایاں مسرت سے مالا مال کرسکتا ہے‘‘۔
حکیم صاحب کے حسن سلوک کے سلسلہ میں بہت سے واقعات زبان زد خاص و عام ہیں۔ راقم ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہے گا جس سے حکیم صاحب کے حسن سلوک کا ثبوت بھی ملتا ہے اور ان کی محبت، مروّت، خلوص، ہمدردی، غم گساری اور دوست نوازی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مسلم صاحب کے ’’دعوت‘‘ کے مدیر کے منصب پر فائز ہوکر دہلی جانے کے بعد روزنامہ ’’ندیم‘‘ کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سید محمودالحسینی صاحب کے سپرد کردی گئی تھیں۔ محمود صاحب بحسن و خوبی مدیر ندیم کی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے کہ علیل ہوگئے۔ علالت کا سلسلہ بڑھتا گیا وہ صاحب فراش ہوگئے۔ ان کے بیمار ہوتے ہی حکیم صاحب نے ان کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اور محمود صاحب کو مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ محمود صاحب کی علالت کے دوران میں جس کی مدت دنوں نہیں مہینوں پر محیط تھی، تاریخ مقررہ پر محمود صاحب کے مشاہرہ کی پوری رقم ان کے گھر بھیجتے رہے۔ جب محمود صاحب صحت مند ہوگئے تو انھوں نے دفتر آنے کی خواہش ظاہر کی ، حکیم صاحب نے سختی کے ساتھ منع کردیا کہ ابھی انھیں (محمود صاحب) کو آرام کی ضرورت تھی جب یہ مدت بھی طویل ہوگئی اور محمود صاحب آرام سے اُکتا گئے تو ایک دن دفتر آگئے، ان کی آمد پر حکیم صاحب نے اگرچہ خوشی کا اظہار کیا لیکن مدیر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے سلسلہ میں نہیں کہا! ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کے اس جواب سے کبیدہ خاطر ہوکر محمود صاحب نے ان سے کہا کہ ’’آپ کب تک میرا کام کرتے رہیں گے۔ ایسا کیجئے میری جگہ کسی اور کا تقرر کرلیجئے‘‘۔ حکیم صاحب نے اس پر بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ’’میرے لیے یہ ناممکن ہے‘‘ اس جواب پر محمود صاحب نے ذرا جھنجھلاکر کہا ’’تو فی الحال میری تنخواہ بھیجنا بند کردیجئے‘‘۔ حکیم صاحب نے مسکراکر کہا ’’یہ بھی نہیں ہوسکتا‘‘ محمود صاحب کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ حکیم صاحب نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ان سے کہا ’’آپ کسی بات کی بالکل فکر نہ کریں۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ گھر جائیں۔ آرام کریں۔ میں جب محسوس کروں گا کہ آپ بالکل ٹھیک ہوگئے ہیں تو تمام کام آپ کے سپرد کرنے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کروں گا۔ اور پھر حکیم صاحب نے کسی کو آواز دے کر محمود صاحب کو ان کی رہائش گاہ تک چھوڑ آنے کو کہا۔ محمود صاحب نم آنکھیں لیے گھر چلے گئے اور حکیم صاحب مسکراتے ہوئے اندر ۔گھر میں۔
سیّد محمودالحسینی مرحوم اپنی تمام زندگی حکیم صاحب کے اس حسن سلوک کا تذکرہ بڑی عقیدت کے ساتھ کرتے رہے اور ہر موقع پر جب وہ یہ واقعہ بیان کرتے تھے ان کی آواز بھرا جاتی تھی اور آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔
حکیم صاحب کے حسن سلوک اور حسن عمل کے واقعات بہت سے ہیں جن کو جمع کرکے ایک کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔ یہاں ان کی دلنواز شخصیت کے بارے میں مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ
حکیم صاحب کی شخصیت علم و آگہی کے جلال اور اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کے جمال کے دلنشیں امتزاج کا ایک ایک ایسا نمونہ تھی جس پر ’’مرثیہ غالبؔ میں شامل مولانا حالیؔ کا درج ذیل شعر پوری طرح صادق آتا ہے ؎
مظہر شان حسن فطرت تھا
معنی لفظ آدمیت تھا