محفلوں کو زینت بخشنے والا شاعر حیدر دہلوی

0

ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی

سخن دلنواز شاعرحیدر دہلوی کا اصل نام سید جلال الدین حیدر تھا اور وہ 17 جنوری 1906ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ نو سال کی عمر میں انہوں نے شاعری کا آغاز کیا اور 13 برس کی عمر سے مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔حیدر دہلوی نے دہلی کی جامع مسجد کے قرب میں آنکھ کھولی جوکہ مرکز فکروفن اورتہذیب وثقافت کی آماجگاہ تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پہ حاصل کی۔ آپ نے عربی مولوی کرامت اور فارسی مرزا حیرت دہلوی سے پڑھی۔
والد کی وفات کے بعد ضروریات زندگی کو پوراکرنے کیلئے آپ نے والدہ کے شانہ بشانہ کام کیا۔ آپ حد درجہ ذہین اور محنتی تھے۔ جو کام آپ کے ہاتھ سے ایک بار گزر جاتا ، ذہن نشین رہتا۔ اس طرح بچپن میں آپ نے بہت سے ہنر سیکھ لیے تھے اورسامان زندگی مہیاکرنے کیلئے کسی کے دست نگر نہیں تھے بلکہ والدہ کی خواہش کے عین مطابق گھریلو ذمہ داریوں پر عہدہ برآں ہونے لگے تھے۔ ماموں کی سرپرستی میں آپ نے اپنی بڑی بہنوں کی شادیاں کر دی تھیں۔ اسی دوران آپ نے اپنے بہنوئی علیم اللہ خان کی مدد سے ہیٹ(ٹوپی) بنانے کا کارخانہ قائم کیا۔ علیم اللہ خان آپ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ آپ نے پریس مشین کا کاروبار ختم کر کے ٹوپیوں کے کارخانے پر زیادہ توجہ دی اور اسے کامیابی سے چلایا۔انگریزوں کا دور تھا اور آپ انگریزوں کے لیے ہیٹ بناتے اور پھر یہ ہیٹ دور دور کے شہروں میں بھیجے جاتے اوراسی طرح آپ کاکاروبارترقی پذیرتھا۔
شاعری کی ابتداء :ان دنوں جامع مسجد کے آس پاس روز کہیں نہ کہیں مشاعرہ منعقد ہوتا تھا۔ دہلی کے کوچہ پنڈت میں استاد شاعر امر ناتھ ساحر دہلوی کے یہاں بھی مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔جو کئی بار حیدر دہلوی اپنے دوستوں کے ساتھ سن چکے تھے۔ انہی مشاعروںمیں آمدورفت کے ذوق نے ان کے اندر خود بھی شعر کہنے کا شوق پیدا کیا۔اور وہ شاعری کرنے لگے۔ حیدر دہلوی کی والدہ انہیں شاعری کرنے سے روکتی تھیں۔ انہیں حیدر صاحب کا دیر سے باہر رہنا پسند نہیں تھا اور وجہ یہ تھی کہ آپ اکلوتے بیٹے تھے۔ مگر حیدر دہلوی کے ماموں انہیں بے حد پیار کرتے تھے اور وہ ان کا شعری ذوق دیکھ کر انہیں پنڈت امرناتھ ساحر دہلوی کی قیام گاہ پر لے جایاکرتے تھے۔
حیدردہلوی سے 13برس کی عمر میں پنڈت امرناتھ نے غزلیں سنیں اور پھر چند مصرعے دئیے کہ ان پہ اشعار کہو۔حیدر صاحب نے فوراََ ان مصرعوں پہ شعر کہہ دئیے۔ اس کے بعد پنڈت ساحر نے انہیں کہا کہ آتے جاتے رہا کرواس کے بعد انہوں نے پنڈت جی کے یہاں ہونے والے ماہانہ طرحی مشاعروں علاوہ دیگر ادبی وثقافتی تنظیموں کے مشاعروں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔پنڈت امرناتھ کی محفلوں اور مشاعروں سے حیدر دہلوی کا اعتماد مزید بڑھ گیا۔ ان کی خود اعتمادی اور مقبولیت اس دور کے کئی اساتذہ کو کَھلتی تھی۔ حیدر دہلوی کو پنڈت امرناتھ زیادہ پسند نہیں کرتے تھے اور چند ہی غزلوں کی اصلاح کے بعد انہیں کہہ دیا کہ جاؤ میاں تمہیں کسی اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ حیدر دہلوی کی شاعری میں استعمال ہونے والی زبان پنڈت جی کو پسند نہیں تھی۔ بلکہ اس دور کے دہلی کے تمام اساتذہ دہلی کو روایتی زبان میں رکھنا چاہتے تھے۔ جب کہ حیدر دہلوی کے یہاں ایک نئی زبان اور جدید فکر نمایاں تھی۔حیدر دہلوی خود بھی انقلاب پسند تھے اور وہ کسی کی تقلید کے قائل نہ تھے۔حیدر دہلوی کی مختصر خود نوشت میں کسی استاد شاعر کا تذکرہ نہیں ملتا۔وہ شاعروں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو داغ و مجروح کی تربیت یافتہ نسل تھی۔ خمریات کے موضوعات کی مضمون بندی میں انہیں کمال حاصل تھا اسی لیے ارباب ہنر نے انہیں خیام الہند کے خطاب سے نوازا تے تھے۔
اپنے صوفیانہ مزاج اور خاندانی پس منظر کی وجہ سے انہوںنے دنیا کوبھی مزرعہ آخرت سے بڑھ کر اہمیت نہیں دی۔ یہ چیزان کے ہمعصرشاعروںمیں انھیں امتیازی حیثیت کا مالک بناتی ہے۔ تصوف ان کی شخصیت میں رچا بسا تھا جس کی وجہ سے ان کے کلام میں اخلاقی بصیرت اور زندگی کی اعلیٰ و ارفع قدروں سے جذباتی اور والہانہ وابستگی ملتی ہے۔ آ زاد روی، قناعت ،توکل، صبر و رضا، ایثار و قربانی، بے نیازی، منکسر المزاجی، بوریا نشینی، درویشی اور دنیا کی بے ثباتی سے متعلق موضوعات، ان کے علاوہ شاعری میں کم ملتے ہیں۔
طالب دہلوی نے اپنی کتاب ’’ یہ تھی دلی‘‘ میں انہیں پنڈت امرناتھ کا شاگرد قرار دیا ہے۔دہلی میں اس وقت سائل دہلوی اور بیخود دہلوی کو استاد کا درجہ حاصل تھا لیکن مشاعرہ حیدر دہلوی لوٹ لیتے تھے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور پھر وہ دور بھی آیا کہ حیدر دہلوی سائل دہلوی اور بیخود دہلوی کی صف میں آ گئے۔اس طرح حیدر دہلوی کم و بیش 43 برس تک دہلی میں مقیم رہے۔ اسی دور میں حیدر صاحب کو ریڈیو دہلی کے مشاعروں میں بھی مدعو کیا جانے لگا۔ کراچی میں حیدر دہلوی کی آمدنی کا واحد ذریعہ بہاول پور کی زمینوں کی فصلوں سے حاصل ہونے والی رقم تھی۔ ایک بار وہ بہاولپور گئے تاکہ فصلوں کی رقم لا سکیں۔ واپسی پہ انہیں گلے کی تکلیف شروع ہوئی۔ جو حیدر دہلوی کی بیگمات کے بقول کھانے میں کسی کے سیندور ملانے کی وجہ سے تھی۔ آپ نے اسے معمولی سمجھا اور علاج پر توجہ نہ دی۔مگر جب تکلیف بڑھی تو ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیا۔گلے کے آپریشن کے دوران ہارٹ اٹیک کی وجہ سے آپ اس جہانِ فانی سے10 نومبر 1958ء کو کوچ کر گئے۔ان کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد صبح الہام کے نام سے شائع ہوا تھا وہ کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔خداان کی لحدپہ شبنم آفشانی کرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS