وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ کے آبائی صوبہ ہونے کی وجہ سے پورے ہندوستان کی نظر گجرات پر رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات کا وزیراعلیٰ غیر معروف ہے اور اس فیصلہ کی تائید اور توصیف یا نکتہ چینی کا نشانہ یہ دونوں شخصیات اور مجموعی طور پر بی جے پی کی مکمل قیادت وقار دائو پر لگا رہتا ہے۔
گجرات میں اسمبلی انتخابات پارلیمنٹ کی انتخابات سے کم اہمیت کے حامل نہیں ہوتے۔ گزشتہ 27سال سے وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور ہر مرتبہ شور مچتا ہے کہ اس مرتبہ پہلے سے زیادہ مقتدر پارٹی (بی جے پی)سے ناراضگی ہے اور ہر دفعہ ہی بی جے پی کا میاب ہوتی ہے۔ اس مرتبہ کچھ زور وشور زیادہ ہے۔
وجوہات اقتصادی بھی ہیں اور سیاسی بھی، گجرات میں بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ عام آدمی پارٹی بڑی دھوم دھام سے اپنی موجودگی درج کرارہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی مرکزی قیادت کے علاوہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے بھی اقتصادی طور پر اہم سمجھی جانے والی ریاست گجرات میں پوری طاقت جھونک دی ہے۔ کانگریس پر مسلسل الزام لگ رہا ہے کہ اس نے ریاست کی انتخابی مہم سے منہ موڑ رکھا ہے اور اس کی ساری توجہ بھارت جوڑو یاترا پر لگی ہوئی ہے جو اس وقت مدھیہ پردیش میں سرخیاں بٹور رہی ہے۔ مگر بی جے پی نے اس بار سمجھ لیا ہے کہ کانگریس بڑی خاموشی سے دیہی علاقوں میں اپنی جگہ بناچکی ہے اور اس مرتبہ اس کا فوکس دیہی علاقے یا غیر شہری علاقے ہیں وزیراعظم اس بابت خود اعتراف کرچکے ہیں کہ کانگریس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس مرتبہ بی جے پی کے سامنے ایک چیلنج عام آدمی پارٹی کا ہے، جو ان تمام علاقوں میں کام کررہی ہے، جہاں بی جے پی سے عوام ناراض ہیں۔ اس بابت سور ت کا ذکر بار بار کیا جارہا ہے جہاں کے کپڑا صنعت کار اور تاجر بی جے پی سرکار سے اس لیے بھی ناراض ہیں کہ اس نے کپڑے پر زبردست جی ایس ٹی لگا دیا ہے اور اس کا اثر پوری کپڑا صنعت پر پڑرہا ہے۔ یکم دسمبر کو پہلے مرحلہ کی پولنگ میں 89سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔
اس مرحلہ کی پولنگ میں 788امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہوگا، ان میں 70عورتیں بھی شامل ہیں۔ پہلے مرحلے کی پولنگ میں 339آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس نے تمام 89سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ عام آدمی پارٹی نے 88سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی ایس پی نے 57اور مجلس اتحاد المسلمین نے 6اسمبلی سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ اس مرتبہ کے انتخابات میں 35سیٹیں ایسی ہیں جہاں پر بی جے پی کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان سیٹوں میں جنوبی گجرات کے بڑوچ ، نرمدا، تاپی ، ڈانک، سورت، ویلساڑ اور نوساری شامل ہیں۔ 2017 کے الیکشن میں اس علاقے میں بی جے پی نے 35میں سے 25سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ کانگریس اور بھارتیہ ٹرائبل پارٹی (بی ٹی پی)نے بالترتیب 8سیٹوں پر اور 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس خطے میں 14سیٹیں شیڈول ٹرائب کے لیے محفوظ ہیں۔ جبکہ ان میں سے پچھلی مرتبہ صرف پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرپائی۔ بعدازاں بعد میں جن دو سیٹوں ڈانگ اور کپڑارا میں الیکشن ہوا وہاں پر کانگریس کو کامیابی ملی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے قبائلی علاقے مشکل سمجھے جاتے ہیں ۔ پچھلے الیکشن میں جنوبی گجرات کے وہ علاقے جنہیں شہری علاقہ کہاجاتا ہے وہاں پر بی جے پی کامیاب ہوئی۔ جبکہ پچھلی مرتبہ بھی یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سورت ونواح میں بی جے پی کو شکست سے دوچار ہوناپڑے گا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2015کی پاٹیدار تحریک جس کی قیادت ہاردک پٹیل کررہے تھے، اس پورے علاقے میں کامیاب ہوئی تھی اور کئی مقامات پر اس تحریک کے دوران تشدد کے بھی واقعات ہوئے تھے۔ جیسا کہ اوپر کی سطور میں بتا یا جا چکا ہے کہ سورت کے تاجر جی ایس ٹی کے نفاذ سے ناخوش تھے مگر اس سب کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی 16میں سے 15سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ یہ سیٹیں وہ ہیں جن کو پاٹیدار تحریک کا مرکز کہا جاتا ہے۔ یعنی وراچہ ، کامراج اور سورت شہر کی کاٹار گرام سیٹ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قبائلی برادریوں کی بات کرنے والی ٹرائبل پارٹی ماندوی (ایس ٹی)سیٹ سے ہی کامیاب ہوئی تھی۔ اس مرتبہ اروندکجریوال کے الیکشن میں دھوم دھام کے ساتھ مہم چلانے کا اثر کیا ہوگا، یہ بھی دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیںہوگا۔ پچھلی مرتبہ سورت کے میونسپل انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے اچھی کارکردگی پیش کی تھی۔ سورت میونسپل کارپوریشن میںکانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی جبکہ عام آدمی پارٹی 27سیٹیوں پر کامیاب ہوئی۔
گجرات: پہلے دور میں بی جے پی کا وقار دائو پر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS