مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
رب العالمین نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرماکر مبعوث فرمایا، آپؐ کی سیرت طیبہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے کامل ترین انسان، اعلیٰ حکمران، بہترین سپہ سالار، قاضی، تاجر، اور ساتھ ہی ساتھ کامل شوہر بھی تھے، بحیثیت شوہر آپؐ کی زندگی پہ نظر دوڑائیں تو عمدہ آبگینوں سے مزین ہے جو کہ موجودہ زمانے میں تمام خاوندوں اور شوہروں کے لیے قابلِ نمونہ اور لاثانی طرزِ عمل ہے۔انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ ایسے ہم مزاج اور ہم مذاق کی جستجو کرتی ہے، جو ایک طرف اس کی زندگی کی محفل کو سنوارے تو وہیں خوشی کی بزم اور مزاج و مذاق کی انجمن کو آراستہ کرے، بلکہ زندگی کی اس جنگ میں مصائب کی شدت اور تکالیف کی سختی کو برداشت کرنے میں ساتھ دے ، روٹھی ہوئی مسکراہٹ کو بحال اور رنج کے اشکوں کو مٹائے، جو اس کے درد کا درماں اور اس کے دکھ کا مداوا بننے کی صلاحیت رکھے تو اسکے لئے خالق کائنات نے مرد کی زندگی میں عورت کو باعثِ تسکین اور لائقِ قرار بنایا تو وہیں شریک حیات کو کیف و سرور اور راحت و شادمانی کا ذریعہ بھی بنایا۔ قرآن مجید نے اپنی بلیغ پیرائے میں اس کو اس طرح بیان کیا ہے:وہ تمہارے لئے لباس اور تم ان کے لئے لباس ہو(سورۃالبقرۃ)
نبی رحمت کی گھریلو زندگی کی ایک جھلک: سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی خارجی زندگی جس طرح شاندار ہے اِس سے کہیں زیادہ آپ کی گھریلو اور معاشرتی زندگی انتہائی پاکیزہ اور قابلِ تقلید ہے ۔ موجودہ دور میں دیکھا گیا ہے لوگ گھر کے باہر بڑی عزت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ اپنے اہل خانہ سے رابطہ درست نہیں ہوتا، ترشی،سخت مزاجی سے اہلِ خانہ پریشان رہتے ہیں اور ایسے افراد سے گھریلو ماحول تباہ و برباد ہوجاتا ہے لیکن تاجدارِ انبیاء امام الانبیاء علیہ السلام کی گھریلو زندگی ایسی پاکیزہ کہ دعویٰ نبوت کے بعد سب سے پہلے تصدیق کرنے والی شخصیت اگر کوئی تھی تو وہ آپؐ کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا تھی، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ازدواجی زندگی میں آپ علیہ السلام کا کردار نہایت پاکیزہ اور عمدہ تھا خود پیغمبر علیہ السلام کا ارشاد عالی ہے: ” تم میں سب سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کی نظر میں اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کی نظر میں سب سے اچھا ہوں ”۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے ساتھ خاطر داری :ایک عورت دوسرے خاندان، دوسرے محلہ اور دوسرے افراد کی تربیت میں پلی بڑھی ہوتی اور پھر نکاح کرکے ایک ایسے اجنبی ماحول میں آجاتی ہے، جہاں ہر چیز نامانوس اور ہر چہرہ نیا ہوتا ہے، از سر نو زندگی کا آغاز ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اعزا ء و اقرباء کی یاد بھی تروتازہ رہتی ہے، ایسے وقت میں دلداری اور خاطر داری کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شادی کے بعد اپنے گھر کے ماحول سے مانوس کرنے کے لئے اپنی بیویوں کی دل جوئی کے ساتھ انکی خاطر داری و محبت کی مثال قائم کرکے پوری انسانیت کو ایک بہترین اسوہ عطا کیا ۔ حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہاخود فرماتی ہیں:میں آپ کے یہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی ہوتی تھیں، جب رسول اللہ گھر میں داخل ہوتے، تو وہ شرماتیں اور پردہ میں داخل ہوجاتیں، آپ انہیں میرے پاس بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلتیں(بخاری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:کہ رسول اللہ میرے دروازے پر کھڑے تھے اور حبشہ کے لوگ نیزہ بازی کررہے تھے، آپ نے اپنی چادر میں مجھے چھپالیا؛ تا کہ میں آپ کے کانوں اور گردن کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھ سکوں، آپ میری وجہ سے کھڑے رہے ؛یہاں تک کہ میں خود لوٹ آئی۔(مسند احمد)
جب ہم اپنے ماحول پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو دلجوئی اور خاطرداری تو کجا؟ سسرال میں ماحول سے مناسبت کا لحاظ کئے بغیر طعنے کسے جاتے ہیں، غربت و مفلسی، اور والدین کو برا بھلا کہا جاتا ہے، اس سلسلے میں ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات سے یکسر مختلف ہوچکا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ زوجین تعلیمات نبوی کے دائرے میں زندگی گزارنے کی کوشش کریں جس سے معاملات کافی بہتر ہوسکتے ہیں۔
نان و نفقہ کی ادائیگی اور نبی رحمت کا طرزِ عمل: ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اپنی شریک حیات کا نان و نفقہ مرد پر شریعت نے لازم کیا ہے، لیکن جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو بہت سارے افراد ایسے نظر آئیں گے،جن کی شریک حیات میکہ سے خرچ منگا کر گزارا کرتی ہیں، افسوس دیکھنے میں یہ بھی آیا کہ گھر کا خرچہ بلکہ مرد کا ذاتی خرچہ بھی میکہ سے لیا جاتا ہے، منع کرنے کی صورت میں طلاق کی دھمکی دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ایسی مظلوم عورتیں ذہنی دبائو کی الجھن میں شکار ہوکر خودکشی اور غلط کاری جیسے جرائم پر مجبور ہوجاتی ہیں، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ اپنی ازواج مطہرات کا نفقہ قبل ازوقت دے دیا کرتے تھے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ بنونضیر سے جومالِ غنیمت آتا، وہ آپؐ کے لئے خاص تھا اور آپؐ اس مال سے اپنی ازواج پر مکمل سال خرچ کیا کرتے تھے۔(مسلم)
کاش! ایسے افراد ذرا تعلیمات نبوی پر غور کرتے، کاش ! اسوہ حسنہ سے آراستہ ہوتے، کاش !اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے بہرہ ور ہوتے۔
نبی رحمت کا ازواج مطہرات کے مابین عدل: مسلم معاشرہ کا اگر جائزہ لیا جائے تو روز افزوں انحطاط کا شکار ہے جس میں بہت سے ایسے افراد ہیں، جو حق زوجیت میں ناکام اور عدل و انصاف کے معیار سے کوسوں دور ہیں، معاشرہ میںماں باپ اور بیوی کے درمیان عدل کا فقدان بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے، ایک طرف اولاد والدین کو وہ رتبہ عطا کرتی ہے کہ بیوی اور شریک حیات کی حیثیت ایک لونڈی سے زیادہ نہیں سمجھتے، تو وہیں دوسری طرف اولاد ہی زن مریدی کی ایک ایسی مثال بھی قائم کرتی ہے کہ بیوی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور صداقت کا سارا معیار بیوی کو سونپ کر والدین کو مجرم بنایا جاتا ہے، بے حرمتی کے ساتھ گھر سے بے گھر کیاجاتا ہے، دونوں جانب غلطی ہوتی ہے اور جو مرد ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں تو وہ بھی ان کے درمیان عدل کا معاملہ نہیں کرتے، رہائش آور آسائش میں، کپڑے اور کھانے میں، باری اور حقوق کی ادائیگی میں عدم توازن اور عدل کی کمی موجودہ زمانے کا خطرناک المیہ بن چکا ہے جو مغربی تہذیب سے مرعوبیت اور محبت کا ایک بڑا خمیازہ ہے۔
کاش! ایسے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے سبق لیتے اور آپ کے فرامین پر توجہ دیتے، عدل کے معیار کو قائم کرتے، خود آپ علیہ السلام کی 11 بیویاں تھیں؛ لیکن کسی کو یہ شکایت کبھی نہیں ہوئی کہ آپ ہمارے درمیان عدل نہیں کرتے،ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس ٹھہرنے کی تقسیم میں کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتے تھے(ابودائود)
حتی کہ ایک بیوی کی باری میں دوسری بیوی سے مس تک گوارا نہیں فرماتے، آپ کا یہ عدل ان چیزوں(باری، کھانا، کپڑا، رہائش، حقوق کی ادائیگی وغیرہ)میں تھا جسکی آپ قدرت رکھتے تھے، غیر مقدور چیزوں کے سلسلہ میں آپ خود دعا فرماتے تھے۔(ترجمہ) اے اللہ اس چیز میں یہ میری تقسیم ہے، جس پر میں قدرت رکھتا ہوں ، آپ اس چیز پر میری ملامت نہ کیجئے، جس پر آپ قدرت رکھتے ہیں ، میں نہیں ۔ بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنے کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سخت وعید و تہدید وارد ہوئی ہے آپ کا فرمان عالی ہے: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف جھک جائے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلوگرا ہوا ہوگا۔
عورت کی رائے کا احترام: فخرکائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی رائے کو بہت اہمیت دی ہے اور وقتا فوقتا موقع کی نزاکت سے عورت کی رائے کا احترام نبی کریم علیہ السلام سے ثابت ہے اور اہم امور پر اپنی ازواج مطہرات سے تبادلہ خیال اور مشورہ کا ذکر احادیث مبارکہ میں پایا جاتا ہے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ علیہ السلام کے ارشاد کے باوجود بھی صحابہ رضی اللہ عنہم نے حلق نہیں کرایا تو حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہانے آپ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ آپ خود حلق فرمالیں اور ہدی کے جانور بھی اللہ کی راہ میں قربان کردیں، تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رائے کو اہمیت دی اس پر عمل کیا، جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے آپ کو حلق کراتے ہوئے اور ہدی کے جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہوئے دیکھا تو صحابہ نے بھی بلا چوں و چراں حلق کرالیا اور اپنے ہدی کے جانور ذبح کئے(بخاری)
ہمیں اپنا گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی اہلیہ اور زوجہ کی کسی بات کو اہم سمجھتے ہیں؟ کیا ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ اگر غور کیا جائے تو ہماری روش طرزِ نبوت سے مختلف اور ہمارے افعال نبی علیہ السلام کے افعال سے جدا گانہ ہیں، آپ علیہ السلام کا طرزِ عمل ہمیں دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسلامی عدل و انصاف کو ملحوظ رکھ کر ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے، عورت کی بات کو ماننے میں عار محسوس نہیں کرنا چاہیے یہی نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا طرزِ عمل رہا ہے اور اسی میں ہی دنیا و آخرت کی فوز و فلاح ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گھریلو زندگی میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین