مؤثر امن و امان کی ضمانت یا مکمل انارکی؟

0

گزشتہ آٹھ دس برسوں کے دوران ملک میںبڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ کچھ تبدیلیوںکو عوام نے اپنا لیا ہے توکچھ کی قبولیت میںردوقدح کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔لیکن ایک تبدیلی ایسی بھی آئی ہے جسے کلی نہ سہی جزوی طور پرہی اپنا لیاگیا اور اس کے خلاف مزاحمت نہیںکی گئی تو ملک کے نظام انصاف کی بنیاد جڑ سے اکھڑ جائے گی۔ وہ تبدیلی ہے منتخب مجرموں کو عدالت تک لے جانے کے بجائے ان سے موقع پر ہی نمٹنے کی۔ ملک کے ایک قابل لحاظ طبقہ کی سوچ اب یہ ہوگئی ہے کہ چند ایک منتخب مجرموں کو عدالت کی دہلیز تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم کردیاجائے۔ بھلے ہی ملک کو اس کی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے، جمہوریت اور انصاف کا خون ہی کیوں نہ ہوجائے، اس طبقہ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔اس کے برخلاف ایسا کرنے والوں کو یہ طبقہ اپنا ہیرو تسلیم کرکے اس کی پوجا ارچنا بھی کررہاہے۔
اترپردیش کو اس معاملے میں رجحان سازی کا اعزاز حاصل ہے جہاں ایک خاص مذہب اور نظریہ سے تعلق رکھنے والے مبینہ مجرموں سے نمٹنے کیلئے انتظامیہ ’ ٹھوک دو ‘ کی غیر آئینی اور غیرقانونی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔صرف مقدمات کے اندراج کی بنیاد پر کبھی پولیس براہ راست مجرموں کو نشانہ بناتی ہے اور کبھی ان کے گھروں کو بلڈوزر سے زمین بوس کر دیا جاتا ہے۔ مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دلانے کی کارروائی کا انتظارگراں گزرنے لگا ہے اور انتظامیہ نے خود ہی عدلیہ کی ذمہ داریاں بھی سنبھال لی ہیں۔ اختیارات کی لامرکزیت کا آئینی نظام منہدم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔جرائم میں ملوث پائے جانے والوں کے گھروں کو مسمار کرنا، چوک چوراہوں پر ان کی تصویریں لگانا، گاڑیوں کو الٹ دینا اورپھر پولیس کی طرف سے گولیوں کی برسات کرنا عام ہو گیا ہے۔
حالیہ دنوں گینگسٹر سے سیاست داں بنے عتیق احمد، ان کے بھائی اشرف اور اس سے قبل ان کے بیٹے اسد کے قتل کی پذیرائی اور قاتلوں کو گلیمرائز ہوتے دیکھ کر یہ لگ ہی نہیںرہاہے کہ یہ ایک ایسے ملک کا معاملہ ہے جہاں آئین اپنی پوری بالادستی کے ساتھ رو بہ عمل ہے اور قانو ن کی حکمرانی ہے۔اس پر ستم یہ کہ جوقانون کی حکمرانی قائم رکھنے کا ذمہ دار اور دعویدار ہے، وہ اس ماورائے عدالت قتل کو جائز ٹھہراتے ہوئے اپنی پیٹھ آپ تھپتھپارہاہے۔
عتیق احمدا ور اشرف کے قتل کی عدالتی تحقیقات کا حکم دینے کے محض دو دنوں بعد ہی اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے آج جو کچھ کہا ہے وہ سن کر یہ نہیں لگتا کہ یہ کسی وزیراعلیٰ کا بیان ہوسکتا ہے جس نے اپنی ریاست میں قانون کی حکمرانی قائم رکھنے کا آئینی حلف لیا ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کاکہنا ہے کہ اب اترپردیش میں کوئی مافیا یا مجرم صنعت کاروںکو دھمکیاںنہیں دے سکتا ہے۔ دھمکیاں دینے والوںکا انجام دنیا دیکھ رہی ہے۔لکھنؤ اور ہردوئی اضلاع میں ٹیکسٹائل پارکس قائم کرنے کیلئے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ یوگی نے کہاکہ اب ایک پیشہ ور مجرم یا مافیا کسی صنعتکار کو فون پر دھمکی نہیں دے سکتا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پہلے اتر پردیش فسادات کیلئے بدنام تھا۔ لوگ صرف کئی اضلاع کا نام سن کر ڈر جایاکرتے تھے مگر اب ڈرنے کی ضرورت نہیں، اتر پردیش اب موثر امن و امان کی ضمانت دیتا ہے۔ 2017سے 2023کے درمیان اترپردیش میں ایک بھی فساد نہیں ہوا، نہ کہیں کرفیو لگایاگیا۔ریاست میں سرمایہ کاری اور صنعت قائم کرنے کا یہ سب سے سازگار موقع ہے۔ہر چند کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے بیان میں عتیق احمد اور اشرف و اسد کے قتل کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن بین السطور وہ تمام باتیں کہہ گئے جو ایسے کسی بھی قتل کو جائز ٹھہرانے کیلئے کافی ہوتی ہیں۔
اب تو یہ وہی بتائیںگے کہ کیسا نظم و نسق ہے کہ2017سے 2023تک چھ برسوں میں10713جھڑپیں ہوچکی ہیں اور 183 افراد کا جعلی پولیس مقابلہ میں قتل کیاجاچکا ہے۔ عدالتوں کا کام کاج یوگی جی کی پولیس سنبھال رہی ہے اور اپنی مرضی سے مجرم طے کرتے ہوئے ان کے خلاف اپنی مرضی کے فیصلے کررہی ہے اور ’قانون کی حکمرانی ‘ کے سایہ میں خود ہی اس فیصلہ کا نفاذ بھی کررہی ہے۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ زیرسماعت قیدی بھی جعلی مقابلوںمیں مرنے کے خوف میں اپنے دن گزاررہے ہیں۔ مرحوم عتیق احمد نے بھی یہی خدشہ ظاہر کیاتھا کہ اترپردیش کی پولیس ان کا قتل کردے گی۔ اب عتیق احمد کا قتل پولیس نے کیا ہو نہ کیا ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پولیس کی گھیرابندی کے دوران عتیق احمد ہلاک کردیے گئے جس کے سربراہ موثرامن و امان کی ضمانتیں بانٹ رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اترپردیش میں مکمل انارکی ہے اورقانون و انصاف کی حکمرانی کا دور دور تک کوئی پتہ نہیںہے، قاتلوں کو ہیرو بناکر ان کی پوجا ارچنا کی جارہی ہے۔ ضرورت ہے کہ ملک کا انصاف پسند طبقہ سامنے آکر ایسی تبدیلیوں کے خلاف مکمل مزاحمت اور احتجاج کو تیز کرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS