سشیل کمار سنگھ
ہندوستانی سیاست کے سامنے اچھی حکمرانی کی سمت میں ابھی مختلف طرح کے چیلنجز کی بھرمار ہے۔ موجودہ وقت میں معاشی چیلنجز سب سے زیادہ خوفناک شکل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انہیں پٹری پر لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مگر ان سب کے بیچ خوش کن پہلو یہ ہے کہ گڈس اینڈ سروسزٹیکس (جی ایس ٹی) میں کلیکشن کی شرح میںاضافہ جاری ہے۔ اس سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ معاشی سرگرمیاں مقابلتاً بہتر ہورہی ہیں۔ مگر ریزرو بینک کی تازہ جائزہ رپورٹ پر غورکریں تو مہنگائی ابھی ایک سال پیچھا نہیں چھوڑنے والی۔ لیکن ترقی ترجیحات میں شامل رہے گی۔ فائنانس بغیر توانائی نہیں اور توانائی بغیر کچھ نہیں، یہ نعرہ دہائیوں پہلے کہیں پڑھنے کو ملا تھا۔ آج کے دور میں یہ کہیں زیادہ متعلقہ معلوم ہوتا ہے۔ اچھی حکمرانی تبھی ممکن کہی جائے گی جب مفادعامہ کے مسائل ختم ہوں، مجموعی ترقی کی راہ ہموار ہو اور امن و خوشحالی کا ماحول ہو۔ اور یہ تب ہوسکتا ہے جب اچھی حکمرانی ہو اور اچھی حکمرانی تب ہی ہوگی جب مناسب فائنانس ہوگا۔اسی کڑی میں ایک سسٹم بالواسطہ ٹیکس جی ایس ٹی ہے جو چار سال پہلے معاشی انجن کے طور پر ملک میں نافذ کیا گیا تھا۔ اچھی حکمرانی کے نظریہ سے جی ایس ٹی کو دیکھا جائے تو یہ قوت اکٹھا کرنے کی ایک معاشی تبدیلی تھی۔ مگر کامیابی کتنی ملی، یہ جانچ سے معلوم ہوگا۔ حالاں کہ 24 جولائی 1991 کو جب لبرلائزیشن ایک بڑی پالیسی معاشی تبدیلی کی شکل لے کر ظاہر ہوئی تھی تب امیدیں بھی بہت تھیں اور کہنا غلط نہ ہوگا کہ تین دہائی پرانے اس سسٹم نے مایوس نہیں کیا، بلکہ اسی دور کے دوران اچھی حکمرانی کو 1992میں سانس لینے کا موقع ملا، جس کی دھڑکنیں کم و بیش آج سنی اور سمجھی جاسکتی ہیں۔
فیڈریشن اور سیاست کے مالی معاملات میں آئینی التزامات کو بھی آئین میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جی ایس ٹی ایک نیشن-ایک ٹیکس کے اصول پر مبنی ہے جو واحد بالواسطہ ٹیکس کلیکشن نظام ہے۔ اس میں فیڈریشن اور ریاست آدھی آدھی حصہ داری رکھتے ہیں۔ جی ایس ٹی مرکز اور ریاستوں کے مابین جھگڑے کی ایک بڑی وجہ اس کی اجارہ داری ہونا بھی ہے۔ نقصان کی تلافی نہ ہونے کے معاملہ میں تو ریاستیں مرکز کے خلاف سپریم کورٹ تک جانے کی بات کہہ چکی ہیں۔ ریاستیں جی ایس ٹی کو مہنگائی کا بھی سبب مانتی ہیں۔
کئی سارے بالواسطہ ٹیکسوں کو یکجا کرکے یکم جولائی 2017کو ایک نیا معاشی قانون گڈس اینڈ سروسز ٹیکس(جی ایس ٹی) نافذ ہوا تھا۔ اس واحد ٹیکس سسٹم سے ریاستوں کو ہونے والے ریونیو ٹیکس کی تلافی کے لیے پانچ سال تک معاوضہ دینے کا التزام بھی اس میں شامل تھا۔ اس کے لیے ایک فنڈ بھی بنایا گیا جس کا کلیکشن 15فیصد تک کے سیس سے ہوتا ہے۔ اصول مطابقت کے نقطہ نظر سے جی ایس ٹی کے مذکورہ تناظر اچھی حکمرانی کی مکمل وضاحت کرتے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ بڑی مشکلات نے اس پر سوال بھی کھڑے کیے ہیں۔ غور طلب ہے کہ جی ایس ٹی نافذ ہونے سے پہلے ہی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے مابین آپس میں اس بات پر اتفاق رائے کی کوشش ہوئی تھی کہ اس کے ذریعہ سے حاصل ریونیو میں مرکز اور ریاستوں کے مابین ریونیو کی تقسیم کس طرح کی جائے گی۔ غور طلب ہے کہ پہلے اس طرح کے ریونیو کی تقسیم مالیاتی کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر کی جاتی تھی۔
جی ایس ٹی کا ایک اہم خیال یہ رہا ہے کہ اس نظام کے نافذ ہونے سے کئی ریاستیں اس خدشہ سے گھرگئیں کہ اس کے نافذ ہونے سے ان کی آمدنی کم ہوسکتی ہے۔ یہ بات کافی حد تک صحیح بھی تھی۔ حالاں کہ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مرکز نے ریاستوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ 2022تک ان کے نقصان کی تلافی کی جائے گی۔ مگر جانچ بتاتی ہے کہ بقایا نمٹانے کے معاملات میں مرکزی حکومت پوری طرح کھری نہیں اترپارہی ہے اور اچھی حکمرانی کے نظریہ سے یہ مناسب نہیں ہے۔ سمجھنے والی بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال 2لاکھ35ہزار کروڑ روپے کے ریونیو کی کمی پر مرکزی حکومت نے ریاستوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اُدھار لیں۔ لیکن ریاستوں میں اس پر اتفاق رائے کی کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی دوران حکومت نے دو اور متبادل سامنے رکھے تھے۔ پہلا یہ کہ ریونیو کی تلافی کے لیے ریاستی حکومتیں کل ریونیو کا آدھا اُدھار اٹھائیں گی اور اس کے اصل اور سود دونوں کی ادائیگی مستقبل میں عیش و آرام والے سامان پر لگائے جانے والے کمپن سیشن سیس سے کی جائے گی۔ دوسرا متبادل یہ تھا کہ ریاستی حکومتیں پورے نقصان کی رقم کو ادھار لیں گی۔ لیکن اس صورت میں اصل کی ادائیگی کمپن سیشن سیس کی جائے گی، مگر سود کے بڑے حصہ کی ادائیگی ریاستوں کو خود کرنی ہوگی۔ پہلے متبادل کو بی جے پی کی حکومت والی اور ان کے اتحاد والی حکومتوں نے تو قبول کیا، لیکن باقی ریاستوں نے اسے خارج کیا۔ مرکز-ریاستوں کے تعلقات کی نظر سے اگر اچھی حکمرانی کو ترازو کے دونوں پلڑوں پر رکھا جائے تو یہ وفاقی ڈھانچہ پر برابر اترتی نظر نہیں آتی۔
مالیاتی تعلقات کے معاملات میں فیڈریشن اور ریاستوں کے درمیان وقت وقت پر مشکلیں آتی رہی ہیں۔ کوآپریٹیو فیڈرلزم کے مطابق ڈھانچہ کی جب بھی بات ہوتی ہے تو اس اعتماد میں اضافہ کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم آہنگی کی ترقی ہو۔ آر بی آئی کے سابق گورنر ڈی سبّاراؤ نے کہا تھا کہ جس طرح ملک کا معاشی مرکز ریاستوں کی جانب منتقل ہورہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ وقت میں ہندوستان کی معاشی ترقی کوآپریٹیو فیڈرلزم پر ٹکی دیکھی جاسکتی ہے۔ غور طلب ہے کہ سنگھ واد (وفاقیت) انگریزی لفظ فیڈرلزم کا ہندی ترجمہ ہے اور اس لفظ کی ابتدا لاطینی زبان سے ہوئی ہے جس کا مطلب سمجھوتہ یا معاہدہ ہے۔ جی ایس ٹی فیڈریشن اور ریاست کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جسے معاشی طور سے کوآپریٹیو فیڈرلزم کہا جاسکتا ہے۔ مگر جب معاہدے پورے نہ ہوں تو تنازع کا ہونا لازمی ہے اور اچھی حکمرانی کو یہیں پر ٹھیس پہنچتی ہے۔ مالی لین دین کے معاملات میں ابھی بھی مسئلہ کاحل پوری طرح نہیں ہوا ہے۔ جولائی 2017 میں جب جی ایس ٹی آیا تھا تب اس ماہ کا ریونیوکلیکشن 95ہزار کروڑ کے آس پاس تھا۔ آہستہ آہستہ کمی کے ساتھ یہ 80ہزار کروڑ پر بھی پہنچا تھا اور یہ اُتارچڑھاؤ چلتا رہا۔ گزشتہ 48ماہ میں بہت کم مواقع رہے جب جی ایس ٹی کلیکشن ایک لاکھ کروڑ روپے سے اوپر گیا۔ وبا کے سبب اپریل 2020میں اس کا کلیکشن 32ہزار کروڑ پر آکر سمٹ گیا تھا، جب کہ دوسری لہر کے دوران اپریل 2021میں یہ اعدادوشمار ایک لاکھ 41ہزار کروڑ روپے کے ہیں جو پورے چار سال میں سب سے زیادہ ہیں۔ حالاں کہ گزشتہ 8ماہ سے جی ایس ٹی کا کلیکشن ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ کا برقرار ہے۔ جب جی ایس ٹی شروع ہوا تھا تب ٹیکس دہندگان 66لاکھ سے تھوڑے ہی زیادہ تھے، لیکن آج یہ تعداد سو کروڑ سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے بالواسطہ ٹیکس کے ساتھ کئی تکنیکی مسائل ہوسکتے ہیں، لیکن جی ایس ٹی کلیکشن کا مسلسل بڑھنا اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس کی اچھی حکمرانی کے پہلو کی مضبوطی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
فیڈریشن اور سیاست کے مالی معاملات میں آئینی التزامات کو بھی آئین میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جی ایس ٹی ایک نیشن-ایک ٹیکس کے اصول پر مبنی ہے جو واحد بالواسطہ ٹیکس کلیکشن نظام ہے۔ اس میں فیڈریشن اور ریاست آدھی آدھی حصہ داری رکھتے ہیں۔ جی ایس ٹی مرکز اور ریاستوں کے مابین جھگڑے کی ایک بڑی وجہ اس کی اجارہ داری ہونا بھی ہے۔ نقصان کی تلافی نہ ہونے کے معاملہ میں تو ریاستیں مرکز کے خلاف سپریم کورٹ تک جانے کی بات کہہ چکی ہیں۔ ریاستیں جی ایس ٹی کو مہنگائی کا بھی سبب مانتی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک ملک-ایک ٹیکس والا جی ایس ٹی اب سبھی ریاستوں میں کیے گئے وعدے پر پوری طرح کھرا نہیں اتر رہا ہے تو 2022 کے بعد کیا ہوگا۔ جب نقصان کی تلافی کی ذمہ داری سے مرکز آزاد ہوجائے گا۔
(بشکریہ:جن ستّا)