ہندوستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کا بڑھتا گراف: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

تمام مخلوقات میں اشرف انسان اس قدر خود غرض اور لالچی ہوگیاہے کہ اپنے مفاد و مقاصد کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔اسلحہ اور منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کے بعد اَب اسے انسانوں کی اسمگلنگ کے غلیظ کام میں بھی شرم نہیں آتی۔انسانی اسمگلنگ آج دنیا کا تیسرے نمبر کا منافع بخش غیرقانونی کاروبار بن چکاہے۔ انسانی اسمگلنگ کے لیے وہی راہ اختیار کی جاتی ہے،جو اسلحہ اور منشیات کی ڈگر ہے۔اس غیر قانونی دھندے سے جڑے جرائم پیشہ عناصر بچوں کودوسرے ممالک میں فروخت کرتے ہیں۔ بچوں سے جبری مشقت کے علاوہ ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔نوجوانوں کے مقابلے کم عمر بچوں کی اسمگلنگ کی شرح زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ بچوں کا غیرقانونی کاروبارایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہر برس کم و بیش12لاکھ بچے اس دلدل میں دھنسنے پر مجبور ہیں۔اغوا یا خریدوفروخت سے حاصل بچوں کی کم فہمی کا فائدہ اُٹھاکر اُن سے کھیتی باڑی، کارخانوں اور گھروں میںجبرن کام کرایا جاتا ہے۔ اتنے پر ہی بس نہیںہے، انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنانے، چوری کرانے، بھیک منگوانے، منشیات فروخت کرانے اور جنسی استحصال کے لیے بھی مجبور کیا جاتا ہے۔اس غیرقانونی دھندے کو فروغ دینے کے لیے معاشرتی نظام،نابرابری اورغربت اہم اسباب ہیں۔ غریبی اور حالات سازگار نہیں ہونے کی وجہ سے کئی والدین جرائم پیشہ افراد کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر 10-12برس کے معصوم بچوں کو اپنی قربت سے دُور کر تے ہوئے جابروں اور جلادوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ان کم سن بچوں میں نہ تو اسمگلروں کی حکم عدولی کرنے کی جرأت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ بچے شیطانی چنگل سے آزاد ہونے کا ہنر جانتے ہیں۔
بنگلہ دیش سے خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد جنسی بے راہ روی،گھروں کی غلامی اور جبری مشقت کے لیے ہندوستان،پاکستان، بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات وغیرہ میں فروخت کی جاتی ہے۔ چوں کہ تاجروں کے نزدیک انسانی اسمگلنگ کا غیراخلاقی کاروبارانتہائی منافع بخش اور راتوں رات امیر بننے کا آسان نسخہ ہے،اس لیے اس ناپاک دھندے سے ہندوستان بھی مبریٰ نہیں ہے۔ ملک میں انسانی اسمگلنگ کے گراف کا پیہم بڑھتے جانا قابل افسوس ہے۔جرائم کی دنیا میں دھوکہ دہی، زور زبردستی اور جبروستم کے ساتھ کی جانے والی اسمگلنگ میں مردوں سے زیادہ خواتین کو شکار بنایا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں اسمگل کی جانے والی کل تعداد کا60فیصد عورتیں پائی گئی ہیں۔ بچوں کو خریدنے یا پھر اغوا کرنے کے بعد اُن سے بھیک منگوانے کا دھندہ تو کافی پُرانا ہے، لیکن اَب ان معصوم بچوں کی غیرمہذب اور گندی ویڈیو بناکر فحش نگاری کے فروغ کے ساتھ دولت کمانے کو آسان ذریعہ سمجھا جانے لگا ہے۔ مغربی ممالک میں ایسی ’ پورن‘ فلموں کی بڑی مانگ ہے۔اتنا ہی نہیں بچوں کے جسم سے ان کے نازک اعضا نکال کر فروخت کیے جا رہے ہیں۔کئی مرتبہ بے روزگار نوجوانوں کو موٹی رقم کا جھانسہ دے کر یا کسی دوسرے طریقے سے سنہرے جال میں پھانس کر ان کے بدن سے گردے وغیرہ نکال لیے جاتے ہیں۔ہندوستان میں گزشتہ3برسوں میں انسانی اسمگلنگ کے معاملوں میں 24فیصد کا اضافہ ہونا انتہائی شرم ناک اور قابل افسوس ہے۔انسانی اسمگلنگ پر پابندی کے لیے جہاں قوانین کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے،وہیں ذی ہوش اور فلاحی کاموں میں دلچسپی لینے والے لوگوں کے ذریعہ معاشرے کو بیدار کرنے کے کام کو پوری ایمانداری کے ساتھ فروغ دینے کی ضرورت ہے،تاکہ اس غیراخلاقی کام اور غیرقانونی دھندے پر مکمل روک لگائی جاسکے۔
نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو(این سی آر بی) کے مطابق ملک میں انسانی اسمگلنگ کے ہر روز اوسطاً 6 معاملے درج ہوتے ہیں۔ زیادہ تر اسمگلنگ جبری مشقت، منشیات کی ترسیل، جنسی استحصال اور جسم فروشی کے لیے کی جاتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے2022میں اس جرم میں 24فیصد اضافہ ہوا۔ 2020میں1,714 مقدمات درج کیے گئے تھے تو 2022 میں ان کی تعداد بڑھ کر 2,250 ہو گئی۔ اسمگلنگ کے انتہائی شرمناک معاملوں میں اضافے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پولیس تقریباً16فیصد معاملوں میں چارج شیٹ داخل نہیںکرپاتی۔اس کے علاوہ تقریباً 80 فیصد معاملوں میں ملزمان عدالت سے بری قرار دے دیے جاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق انسانی اسمگلنگ کی سب سے زیادہ شکایتیں تلنگانہ اور مہاراشٹر میں درج کی گئی ہیں۔2020میں دونوں ریاستوں میںانسانی اسمگلنگ کے184-184معاملے درج کیے گئے تھے۔ 2021میں اس قسم کے بالترتیب 347 اور320 معاملے درج کیے گئے۔2022میں تلنگانہ میں انسانی اسمگلنگ کے معاملوں میں اضافہ ہوا تو مہاراشٹر میں کسی قدر کمی آئی۔ تلنگانہ میں391 اور مہاراشٹر میں 295 معاملے درج ہوئے۔ اس بنا پر ہندوستان دنیا بھرمیں ٹیئر2-کے زمرے میں شمار کیاجاتا ہے۔ٹیئر2-کا زمرہ ان ممالک کے لیے ہے،جہاں حکومتیں انسانی اسمگلنگ روکنے کے طے شدہ کم سے کم معیارات پر مکمل طور پر عمل نہیں کر پاتیں۔این سی آر بی کے مطابق ہندوستان میں انسانی اسمگلرکے ذریعہ مردوں کے مقابلے خواتین کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔2020میں انسانی اسمگلنگ کے4,709 معاملوں میں خواتین کی تعداد 2,797 (59.39 فیصد) اور مردوں کی تعداد 1,912 (40.60فیصد) تھی۔ 2021 میں یہ معاملے بڑھ کر 6,533ہو گئے۔ان میں خواتین کی تعداد 2,797 (62.17 فیصد) اور مردوں کی تعداد 2,471 (37.82 فیصد) تھی۔ 2022میں اسمگلنگ کے معاملے کچھ کم ہوئے۔ کل 6,036 معاملوں میں خواتین کی تعداد 3,594 (59.54فیصد) اور مردوں کی تعداد 2,442 (40.45فیصد) رہی۔گزشتہ 3برسوں میں اسمگلنگ کے شکار 16,585 متاثرین میں 10,453 تعدادعورتوں کی رہی۔ 2020 میں1,714 مقدمات لکھے گئے۔ 4,966 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ 85.2 فیصد معاملوں میں چارج شیٹ داخل کی گئی اور101 مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ 2021 میں درج انسانی اسمگلنگ کے 2,189معاملوں میں 5,755 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ 84.7فیصد معاملوں میں چارج شیٹ جمع کی گئی اور64مجرموں کو سزا ہوئی۔ 2022 میں کل درج2,250معاملوں میں5,864لوگ گرفتار ہوئے۔83.9فیصدکے خلاف چار شیٹ داخل کی گئی اور سب سے زیادہ 204 مجرمان کو سزا ہوئی۔ 2020 میں 1,452 افراد کو جبری مزدوری کے لیے اغوا کیا گیا۔ 1,466 جنسی استحصال کے شکار ہوئے۔ 187خواتین کے ساتھ زبردستی شادیاں کی گئیں،جبکہ1,575افراد اطفال پورنوگرافی،جسم سے اعضا نکالنے اور بھیک منگوانے جیسے جرائم میں شامل پائے گئے۔
گزشتہ برس نومبرمیں قومی تحقیقاتی ایجنسی(این آئی اے)کے ذریعہ ملک کی10ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں تریپورہ،آسام،مغربی بنگال، کرناٹک، تمل ناڈو،تلنگانہ،ہریانہ،راجستھان، جموں و کشمیر اور پڈوچیری میں55 مقامات پر بیک وقت چھاپے مارے گئے۔ ان میں گوہاٹی، چنئی، بنگلور اور جے پور میں انسانی اسمگلنگ کے4معاملوں میں44افراد کو گرفتار کیا۔5صوبوں میں انسانوں کی اسمگلنگ کے 5 ماڈیول کا پردہ فاش ہوا۔ ہندوستان -بنگلہ دیش سرحد پار سے غیر قانونی طریقے سے ملک میں دراندازی میں ملوث نیٹ ورک کو ختم کرنے کے مقصد سے مارے گئے چھاپوں کی مہم میں مقامی پولیس اوربارڈر سیکورٹی فورس کا تعاون رہا۔قومی خواتین کمیشن انسانی اسمگلنگ روکنے اور خواتین و لڑکیوں میں بیداری کے لیے2 اپریل 2022کو ’ اے ایچ ٹی سی‘ سیل قائم کر چکا ہے۔ انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے قوانین کو مزید سخت کیا جا سکتا ہے،لیکن اس پر پابندی کے لیے لالچ،پیار و محبت، نوکریوں کی فریب کاری کے اشتہارات،تعلیمی مواقع میں جھوٹ، اہل خانہ کے ذریعہ فروخت،اغوا اور دیگر قسم کے جھانسوں سے بیداری کے ساتھ خطرناک صورت حال میں پولیس، ایمبولینس اور ایمرجنسی نمبروں پر رابطہ قائم کرنے کی جانکاری بھی ضروری ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS