ترقی کرتی معیشت،غریب ہوتے عوام

0

کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہے کہ حکمراں طبقہ کی جانب سے ہندوستانی معیشت کی ترقی کے سلسلے میں طرح طرح کی ہرزہ سرائیاں سننے میں نہ آتی ہوں۔ کبھی وزیرخزانہ نرملا سیتارمن کہتی ہیںکہ ہندوستان مستحکم معیشت بن چکا ہے، کبھی اشونی وشنو دعوے کرتے ہیں کہ ہم اگلے ایک سال میں دنیاکی چوتھی معیشت بن جائیںگے تو کبھی وزیراعظم نریندرمودی اس ہرزہ سرائی میں سنہرے گوٹے جڑتے ہوئے نظرآتے ہیں اور اہل وطن کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جانے کا مژدہ سناتے ہیں۔ لال قلعہ کی فصیل سے کیے گئے اپنے بلند بانگ دعوے میں وہ اتنے پُر یقین تھے کہ انہوں نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ اگلے پانچ برسوں میں ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔اس کے فوائد بتاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ جب ملک معاشی طور پر خوشحال ہوتا ہے تو اس سے صرف خزانہ نہیں بھرتابلکہ ملک کی طاقت بڑھتی ہے، اہل وطن کی طاقت بڑھتی ہے،غربت کم ہوتی ہے اور متوسط طبقے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
اب ایک بار پھر وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستانی معیشت کی مضبوط ترقی اور مضبوطی کادعویٰ کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی معیشت اس مشکل وقت میں امید کی کرن کے طور پر چمک رہی ہے۔ مضبوط ترقی اور استحکام کے احساس کے ساتھ مستقبل امید افزا لگتا ہے۔ 140 کروڑ ہندوستانیوں کی خوشحالی یقینی بن چکی ہے۔
حکمرانوں کے یہ دعوے اعدادوشمارکے لحاظ سے درست بھی ہیں کیوں کہ جب نریندر مودی 2014 میں وزیراعظم بنے تو دنیا کی معیشت میں ہندوستان کا مقام دسویں نمبرپر تھا۔ان کی جاریہ دوسری اننگز میں ہندوستان پانچ درجے ترقی کرکے پانچویں نمبر پر آگیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی بڑھتارہا تو ممکن ہے کہ ہندوستان جرمنی اور جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تیسرے نمبر پر بھی آجائے۔معاشیات کے عمومی اصولوں کے مطابق کسی ملک کی آبادی جتنی زیادہ ہوگی، مجموعی گھریلو پیداوار یا جی ڈی پی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔آج آبادی کے لحاظ سے ہندوستان اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس اعتبار سے ہندوستان دھیرے دھیرے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر پانچویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ اب اس کا چار ممالک امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی سے مقابلہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی جی ڈی پی اب 3.7 ٹریلین ڈالر ہے۔امریکہ کی جی ڈی پی 26.9 ٹریلین ڈالر ہے جب کہ چین کی19.5ٹریلین ڈالر اور جاپان و جرمنی کی 4.3 ٹریلین ڈالر کے آس پاس ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں ہندوستان کی شرح نمو 6 یا 7 فیصد بھی رہی تو ہندوستان تیسرے نمبر کے مطلوبہ ہدف پر پہنچ جائے گا۔
لیکن اس ہدف تک رسائی کے باوجود معاشی خوشحالی ہندوستانیوں سے دور ہی رہے گی کیوں کہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کی ایک تہائی آبادی کو اب بھی دو وقت کا کھانانہیں مل پاتا ہے، وہاں معیشت کے استحکام اور معاشی خوشحالی کا تصور خیالی پلائو سے زیادہ کچھ نہیں لگتا ہے۔ کیوں کہ کسی ملک کی ترقی اورخوشحالی کا دارو مدار اس کے بڑھتے معاشی حجم کے بجائے اس ملک کے لوگوںکی آمدنی پر ہوتا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچنے کیلئے ہندوستان کو ابھی کئی دہائیوں کا سفر کرنا پڑے گا۔
ہندوستان میںفی کس جی ڈی پی 2200 ڈالر ہے جب کہ برطانیہ جسے پیچھے چھوڑتے ہوئے ہندوستان معیشت کے پانچویں مقام پر پہنچا ہے، وہاں فی کس جی ڈی پی 47374 ڈالر ہے یعنی برطانیہ کے لوگ پیچھے رہ جانے کے باوجود ہندوستانیوں سے کہیں زیادہ خوشحال ہیں۔فی کس آمدنی کے معاملے میں آج بھی ہندوستان عالمی درجہ بندی میں 189 ممالک کی فہرست میں 141ویں نمبر پر اور اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے پیچھے ہے۔دعوے کے مطابق ہندوستان میں فی کس آمدنی 14ہزار روپے ماہانہ ہوگئی ہے لیکن اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آمدنی میں اضافہ متناسب نہیںہے بلکہ مودی دور میں آبادی کے ایک بڑے حصے کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ 2019-20کے مقابلے 2022-23 میں انکم ٹیکس ادا کرنے والے ہندوستانیوں کی تعداد میں تقریباً 44لاکھ کی کمی واقع ہوئی ہے۔متوسط طبقہ غریب اور غریب طبقہ غریب تر ہوتا گیا ہے جب کہ کل دولت کا 40فیصد حصہ سمٹ کر ملک کی ایک فیصد آبادی کے خزانے کو بڑھارہاہے۔ فی کس آمدنی کا یہ واضح فرق بتارہاہے کہ تیسری کیا پہلی معیشت بن جانے کے باوجود بھی ہندوستان کے عوام کو وہ خوشحالی نصیب نہیں ہوسکتی ہے جو معیشت کے حجم میں پیچھے رہ جانے والوں کو حاصل ہے۔ معیشت کی یہ ترقی صریحاً دھوکہ ہے جو بڑی کامیابی کے ساتھ مودی حکومت سسکتے ہوئے غریب عوام کو دے رہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS