ججوں کی تقرری کا معاملہ: کالجیم کے پیش کردہ 2 ناموں پر مرکز کی مہر

0

نئی دہلی، (ایجنسیاں) :ججوں کی تقرری کے لیے اپنائے جانے والے کالجیم سسٹم کو لے کر مرکز اور سپریم کورٹ کے درمیان کشمکش بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ دریں اثنا یہ بات سامنے آئی ہے کہ مرکز نے ممبئی ہائی کورٹ میں جج کے طور پر تقرری کے لیے سپریم کورٹ کالجیم کی طرف سے بھیجے گئے 2 ناموں کو منظوری دے دی ہے۔ وزیر قانون کرن رجیجو نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ یہ جانکاری دی۔ انہوں نے بتایا کہ 2 سینئر وکلا سنتوش گووند راو¿ چپلگاو¿نکر اور ملند منوہر ساٹھے کو ہندوستان کے آئین کے تحت بامبے ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر ترقی دی گئی ہے۔
کالجیم کی سفارش کے باوجود ججوں کی تقرری میں تاخیر کے معاملے پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی جانب سے پیر کو مرکز کی سرزنش کیے جانے بعد مرکز نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکز کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا تھا کہ قانون ہے، اسے تو ماننا ہی ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ مرکز کے اس رویہ سے عدالتی عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ حکومت اس بات سے ناخوش دکھائی دیتی ہے کہ نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن (این جے اے سی) نے آئینی ضابطہ پاس نہیں کیا۔ واضح رہے کہ 2 دن پہلے مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے کہا تھا کہ کالجیم یہ نہیں کہہ سکتا کہ حکومت اس کے ذریعہ بھیجے گئے ہر نام کو فوری طور پر منظور کرے۔ پھر تو انہیں خود ہی تقرری کر لینی چاہیے۔
کالجیم کے معاملے پر حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔ وہیںپیر کو یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ حکومت نے سپریم کورٹ کالجیم سے ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری سے متعلق 20 فائلیں واپس کر دی ہیں۔ یہ بھی کہا ہے کہ کالجیم کو ان پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ ان فائلوں میں ایڈووکیٹ سوربھ کرپال کی تقرری کی فائل بھی شامل ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس نے حال ہی میں اپنی ہم جنس پرستی کے بارے میں کھل کر بات کی تھی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے عمل سے وابستہ ذرائع نے بتایا تھا کہ حکومت نے 25 نومبر کو فائلوں کو کالجیم کو واپس بھیج دیا تھا۔
مرکز نے سینئر ایڈووکیٹ سوربھ کرپال کو دہلی ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ترقی دینے کی سفارش پر اعتراض کیا ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کالجیم سے ان کے نام پر نظر ثانی کرنے کو کہا ہے۔ اس کے علاوہ مرکز نے سپریم کورٹ کے ججوں کے طور پر تقرری کے لیے بھیجے گئے کئی ناموں کو بھی ایس سی کالجیم کو واپس بھیج دیا ہے۔
سوربھ ہم جنس پرست ہے اور LGBTQ حقوق کے لیے آواز اٹھاتا رہا ہے۔ انہوں نے ’سیکس اینڈ دی سپریم کورٹ‘ نامی کتاب بھی ایڈٹ کی ہے۔ وہ ہندوستان کے سابق چیف جسٹس بی این کرپال کے بیٹے ہیں۔ پچھلے سال ہندوستان کے اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمن کی سربراہی میں کالجیم نے سوربھ کی ترقی کی سفارش کی تھی۔ کالجیم کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کالجیم نے 11 نومبر 2021 کو منعقدہ اپنی میٹنگ میں سوربھ کو دہلی ہائی کورٹ میں جج کے طور پر ترقی دینے کی تجویز کو منظوری دے دی تھی۔ کرپال کا نام بار بار حکومت کو بھیجا گیا ہے۔ 2017 میں دہلی ہائی کورٹ کالجیم نے متفقہ طور پر سوربھ کرپال کی دہلی ہائی کورٹ کے مستقل جج کے طور پر تقرری کی سفارش کی تھی۔ تب میرٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سوربھ کا نام آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ اس کے بعد ستمبر 2018، جنوری اور اپریل 2019 میں بھی سوربھ کے نام پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ کہا جاتا ہے کہ انٹلیجنس بیورو کی ایک رپورٹ سوربھ کے حق میں نہیں تھی۔ دراصل سوربھ کا پارٹنر یوروپ سے ہے اور سوئس ایمبیسی میں کام کرتا ہے۔ اس کے غیر ملکی ساتھی کی وجہ سے اس کا نام سکیورٹی کے حوالے سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ حالانکہ ٹائمس آف انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سوربھ نے کہا ہے کہ ابھی تک جج نہ بننے کی وجہ کہیں نہ کہیں میرا جنسی رجحان بھی ہے، کیونکہ اگر منظوری مل جاتی ہے تو کرپال ہندوستان کے پہلے گے (ہم جنس پرست) جج بن جائیں گے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS