وجہ القمر
بھارت میںبدعنوانی کی شکایتیں آزادی کے بعدسے ہی مسلسل آنے لگیںتھیں،جس کی وجہ سے اس ملک کو تقریباً اربوں کھربوں روپے کا چونا لگ چکا ہے اورآج تک کسی معا ملے میں بھی ریکوری نہیں ہوسکی ہے۔ ہر زمانے میںاس وقت کی موجودہ سرکاروں نے بدعنوانی جیسے بد نماداغ پر قدغن لگانے کی کوشش کی اورحتی الامکان اس پرقدغن بھی لگایا اور جو بھی بد عنوانی کے معا ملے سامنے آئے ان کی انکوائری بھی کرائی گئی، اگر چہ اس میں وزیر اعظم خودہی کیوں نہ ملوس ہوں ،مگرجب سے مودی جی کی قیادت میں مرکزپر این ڈی اے کا قبضہ ہوا،کئی معا ملات سرخیوں میں آئے خودوزیر اعظم پربھی بدعنوانی کے الزام لگے ،لیکن اپوزیشن کے لاکھ شوروغل کے باوجودنہ توکوئی انکوئری کے لئے کمیٹی بنائی گئی اور نہ ہی کسی معا ملے میں کارروائی کا اعلان کیا گیا۔اپوزیشن نے اگر کسی طرح سے کچھ بدعنوانی کے معا ملات کوسپریم کورٹ میںپہنچا بھی دیا توعدلیہ کے کچھ ججوںپر بی جے پی یا مودی کے اثرورسوخ کا اتنا اثر رہا ہے کہ آگے یہ کیس ٹک نہ سکا۔اسلئے کہا جاتا ہے اور اپنے پیارے ملک ہندوستان میں قانون بھی ہے کہ اگر کسی پربد عنوانی کا الزام لگ جائے تو جانچ تک اسے تمام عہدوں سے بر طرف کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے اثرورسوخ کاغلط استعمال نہ کر سکے۔ ایسا نہیں ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک بد عنوانی کے جتنے بھی معا ملے آئے سب غلط تھے،بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکثر معا ملات میں سچائی تھی وہ الگ بات ہے کہ اتنی سچائی نہیں تھی جتناڈنٹھورا پیٹا گیا۔
2014کے بعد بی جے پی کے دور اقتدار میں وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر ان کے کئی سینئر لیڈروںمثلاًوزیراعلی مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان،سابق وزیر اعلی چھتیس گڑھ رمن سنگھ،بی جے پی کے سینئر لیڈرنتن گڈکری ، راج ناتھ کے بیٹے اوربی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے لیڈر امت شاہ کے بیٹے پربھی الزام لگے کہ ان لوگوں نے بھی بد عنوانی کی ہے،مگر کسی بھی معا ملے کی انکوائری نہیں کرائی گئی،بلکہ انہوں نے اپنے عہدے پر رہ کر تمام بدعنوانی کے داغ خود دھل لئے اور اپنے آپ کو بد عنوانی سے پاک لیڈر کہنے لگے۔ بی جے پی کے جہاں تمام لیڈروں پر کارروائی نہیں ہوئی ،اسی طرح بی جے پی کے ایک اورلیڈرجوہمیشہ سرخیوں میں بنے رہتے ہیں،آسام کے وزیر اعلی کی اہلیہ پربھی بدعنوانی کے الزام لگے ہیں، ویسے یہ الزام کوئی چھوٹا نہیں بلکہ ذرائع جیسے بتا رہے ہیں کہ وزیر اعلی ہیمنت وشوسرماکی بیوی کے خلاف106 بیگھے زمین ایکوائر کر نے کا معا ملہ ہے اوراس پورے معاملے میں سرمانے خودمذکورہ زمین دلانے کے لئے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کیا اور اس کے بعد یہ زمین الاٹمنٹ ہوئی۔بات صرف اتنی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو فائدہ پہنچایا بلکہ جب یہ الزام لگا اور جس نے اس پورے معا ملے کا خلاصہ کیا ان کے خلاف کیس کرنے کی بات ہورہی ہے اور پورے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کا دباو بھی بنایا جا رہا ہے۔
بھار ت میں آزادی کے بعد سے2009تک بدعنوانی کے معا ملات پر اگرنظرڈالیں تو250سے زیادہ گھوٹالے ہوئے ہیں،جس میںسے اکثربدعنوانی کے معا ملا ت پرمقدمات بھی چلے اورکچھ جیل بھی گئے، لیکن2014کے بعد جتنے بھی بدعنوانی کے معا ملات بی جے پی کے دوراقتدار میںسامنے آئے ان پر نہ تو کہیں مقد مہ چلا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی کارروائی ہوئی، پھر بھی بی جے پی کے لوگ خود کو پاک وصاف سمجھتے ہیں،جبکہ کئی بدعنوان تا جروں کے بارے میں یہ خبر آئی تھی کہ وہ بھاگ کر نہیں گئے ہیں ،بلکہ بی جے پی کے سینئر لیڈروںنے انہیںبھگایا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ بی جے پی چا ہے جتنے دعوی کرے وہ دودھ کی اتنی دھلی نہیں ہے،جتنی وہ بتا ر ہی ہے ۔آپ لوگوں کومعلوم ہونا چاہئے کہ مودی جی کے اقتدار میں آنے کے چوتھے سال میں ہی پبلک سیکٹر بینک پی این بی میں ہزاروں کروڑ روپے کا گھوٹالہ بے نقاب ہواتھا۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی تھی جب ہیروں کے تاجر نیرو مودی اور میہول چوکسی بینکوں کا9 لاکھ کروڑ روپے لے کر اور بیرون ملک فرار ہو گئے تھے،یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا ہے بلکہ اسی سال کنگ فشر کے مالک اور صنعت کار وجے مالیا، جو سرکاری بینکوں سے 9000 کروڑ روپے لے کر ملک سے فرار ہو گئے اور 2 مارچ 2016 سے لندن میں ہیں۔ جب مالیا نے ملک چھوڑا تو وہ کرناٹک سے راجیہ سبھا کے رکن تھے۔ راجیہ سبھا کے ریکارڈ کے مطابق وجے مالیا یکم مارچ 2016 کو راجیہ سبھا میں موجود تھے اور اگلے ہی دن 2 مارچ کو وہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔مالیا نے سفارتی پاسپورٹ پر لندن کا سفر کیا، وہاں سے مالیا نے راجیہ سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ بھیج دیا۔وہیںللت مودی کولے کربھی مودی حکومت کے قربت کے کافی ثبوت ملے ہیں،اس لئے وہ اب بھی حکومت کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ سب سے پہلے للت مودی کا مودی نام اپوزیشن کو الزامات میںگھیرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور گاہے بگاہے اس طرح ہوتا رہتا ہے۔ دوسرا راجستھان کی سی ایم وسندھرا راجے سے ان کی قربت اور للت مودی کے وکلاء کی ٹیم میں سشما سوراج کی بیٹی بنسوری سوراج کی موجودگی اور تیسرا للت مودی کو ملک واپس لانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا نا ہے،اس کے علاوہ یہ بھی الزام لگا تھاکہ آنجہانی سشما سوراج کی بیٹی بنسوری نے للت مودی کو برطانیہ سے باہر جا کر دنیا بھر میں گھومنے کی اجازت دلائی ہے، جس پر اپوزیشن نے مودی حکومت کو گھیر لیا اور اس وقت کی وزیرخارجہ سشماسوراج کو پارلیمنٹ میں وضاحت بھی دینی پڑی تھی،مگران سب پراب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے اور نہ اب امید ہے۔جبکہ کانگریس کے دور اقتدار 1960 میں بھی دھرم تیجا نامی ایک تاجر نے شپنگ کمپنی شروع کرنے کے لیے ہندوستان کے بینکوں سے 22 کروڑ روپے کا قرض لیاتھا، لیکن بعد میں یہ رقم اس نے ملک میں لگانے کے بجائے بیرون ملک بھیج دیا اور اپنا خود بھی ملک چھوڑ کر باہر بھاگ گیا،مگر اس وقت کے وزیر اعظم نے اسے یورپ میں گرفتار کرایا اورہندوستان لے کر آئے اور چھ سال تک قید میں بھی رکھا، لیکن وہ جیل میں جانے کے بعد صحت یاب نہ ہوسکا،جس کی وجہ سے اس سے پیسے کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ کانگریس پرملک میں غلط اور تانا شاہ کے ذریعہ حکومت کر نے کا الزام لگتا رہا ہے ،مگراس نے کبھی بھی اپنے رتبہ کا غلط استعمال نہیں کیا اور جو بھی الزام لگے اس کی انکوائری کرائی۔ 1974 میںماروتی کمپنی کے قیام سے پہلے یہاں ایک گھوٹالے کی بات سامنے آئی تھی، جس میں راہل گا ندھی کی دادی اورسابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کا نام سامنے آیا تھاکہ انہوں نے اپنے بیٹے سنجے گاندھی کو مسافر کاریں بنانے کی لائسنس دلانے میں مددکی تھی،مگرجب انکوائری کی گئی تو اس میں کسی طرح کی سچائی سامنے نہیں آئی اور معا ملہ بند کرناپڑا، اسی طرح1976 میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر انڈین آئل کارپوریشن نے ہانگ کانگ کی ایک جعلی کمپنی کے ساتھ تیل کا سودا کیا۔ اس میں حکومت ہند کو 13 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ مانا جا رہا ہے کہ اس گھوٹالے میں اندرا اور سنجے گاندھی کا بھی ہاتھ ہے،مگر اس میں بھی کوئی سچائی سامنے نہیں آئی جس کی وجہ سے معا ملے کوختم کردیا گیا،لیکن کہیں بھی یہ بات نہیں آئی کہ اندرا گاندھی نے جانچ ایجنسیوں کو جانچ کر نے سے روکا ہو،وہیںبی جے پی میں موجودہ وقت کے دوسرے سب سے بڑے لیڈرامت شاہ کے راج کمار پر بھی اپنے باپ کے رتبے کا استعمال کر کے ترقی کرنے کی بات سامنے آرہی تھی۔دی وائر نام کی ایک نیوز ویب سائٹ نے گزشتہ سال دعویٰ کیا تھا کہ این ڈی اے کے اقتدار میں آنے کے ایک سال کے اندر ہی امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی کمپنی کا کاروبار 16 ہزار گنا بڑھ گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایک سال میں کمپنی کی آمدنی 50,000 روپے سے بڑھ کر 80 کروڑ روپے تک پہنچ گئی،جبکہ رپورٹ کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے جے شاہ نے اس مضمون کی مصنفہ روہنی سنگھ کے خلاف 100 کروڑ روپے کا مجرمانہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے۔وہیں دوسری جانب پیوش گوئل پر بھی کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے الزام لگایا تھاکہ گوئل نے 10 روپے کے حصص 9,950 روپے میں ایک کمپنی کو بیچا جو توانائی کے شعبے سے وابستہ تھی۔ یہ اس وقت ہوا جب وہ وزیر توانائی تھے۔ کانگریس نے پیوش گوئل پر الزام لگایا کہ وزیر توانائی رہتے ہوئے گوئل نے کمپنیوںکے حصص اور غیر اعلانیہ اثاثوں کی معلومات چھپائی اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا،اس کے علاوہ مدھیہ پردیش کے وزیراعلی شیوراج سنگھ حکومت پر بھی بد عنوانی کے الزام لگے اور اس معاملے کی جانچ کے لیے انہوں نے خود ایس آئی ٹی بنائی، اس کے بعد یہ معاملہ سی بی آئی تک بھی پہنچا ،لیکن اب تک جانچ میں کچھ بھی ٹھوس ثبوت نہیںملا،اسی طرح سابق وزیراعلی چھتیس گڑھ پر بھی الزام لگے، مگران کے جانچ کی کچھ کارروائی کا پتہ نہیں چلا،جبکہ آزادی کے بعد سے یو پی اے 2تک جتنے بھی کیس درج ہوئے سب پر کارروائی کی گئی تھی بلکہ کئی کیسز میں سزا بھی ہوئیں۔بتادوں کہ ملک میں سب سے پہلے 1948 میں جیپ خریدی گھوٹالہ سامنے آیا ،جس کے معا ہدے میں پیش پیش رہنے والے کرشنا مینن اوربرطانیہ میں اس وقت کے ہندوستانی ہائی کمشنر وی نے کا نام آیاتھا اور ان پر الزام لگاتھا کہ ان لوگوںنے آدھے آدھے پیسے کھا لئے،جس کے بعد ان پر مقد مہ چلا،مگرکرشنا مینن کی وجہ سے یہ مقدمہ 1955 میں بند کر دیا گیا۔ 1951 میںتجارت اور صنعت کی وزارت کے سکریٹری وینکٹرمن کے ذریعہ ایک کمپنی کو سائیکل امپورٹ کرنے کاکوٹہ دیا گیا اس کے عوض انہوںنے رشوت لے لی ،جس کا معا ملہ کھلنے کے بعدانہیں جیل جانا پڑا۔آپ لوگوں کوایک جانکاری یہ بھی ہونی چا ہئے کہ مودی جی کی موجودہ حکومت میں بھی آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹس (او سی سی آر پی) کی رپورٹ نے ارب پتی گوتم اڈانی اور ان کے پورٹ ٹو انرجی گروپ کے خلاف اپنی رپورٹ میں اسٹاک میں ہیرا پھیری کے الزامات لگائے تھے تو اس وقت ایک خبر سامنے آئی تھی کہ اڈانی کو جو35,000 کروڑ روپے کانقصان ہواہے اس میں سے لائف انشورنس کارپوریشن (LIC) کو بھی صرف ایک سیشن میں 1,439.8 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا اور یہ سب کیسے ہوا یہ بھی کھل کر سامنے آیا تھا کہ موجودہ حکومت نے ایل آئی سی کے کچھ پیسے غلط طریقہ سے ا ڈانی گروپ کی چھ کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرائی تھی۔اس لئے جب اڈانی کی پول کھلی اور ان کے شیر گرنے لگے تواس سے ایل آئی سی کو بھی کروڑوں کا نقصان ہو،مگر ابھی تک اس معا ملے کی انکوائری بھی کرانے کی طرف کوشش نہیں کی گئی اور الٹے امریکہ کی کمپنی کے خلاف ایکشن لینے کی تیاری کی جانے لگی،مگر جب یہ اندازہ ہوا کہ مزید کر کری ہوگی تو معا ملے کو دبانے کی کوشش کی جانے لگی۔ جبکہ اسی طرح 1958 میں بھی( جب وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے) ہری داس موندھرا کی قائم کردہ چھ کمپنیوں میں لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا کے 1.2 کروڑ روپے کے انویسٹ منٹ کا معاملہ سامنے آیاتھا اور اس سے بھی ایل آئی سی کو کافی نقصان ہواتھا،لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نے سخت ایکشن لیا اوروزیر خزانہ ٹی ٹی کرشنم اچاری کو استعفیٰ دینا پڑاتھا اور جب جانچ ہوئی توٹی ٹی کرشنم اچاری بے قصور پائے گئے اور مجرم مندھرا کو جیل جانا پڑا تھا۔1961 میں بھی آج کے اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ بیجو پٹنائک کوبھی اس لئے استعفیٰ دینا پڑا تھا،کیونکہ ان پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے اپنی نجی کمپنی ’’کلنگا ٹیوبز‘‘کو سرکاری ٹھیکہ دلانے میں مدد کی تھی،مگراس پورے معا ملے کی جانچ کرائی گئی اوربیجو پٹنائک بے قصور پا ئے گئے۔1981 میں مہاراشٹر میں سیمنٹ گھوٹالہ ہوا تھا۔ اس وقت کانگریس کی جانب سے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اے آر انتولے تھے، ان پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے وہ سیمنٹ، جو کہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جانا تھا، پرائیویٹ بلڈروں کودے دیا تھا۔ یہ مقدمہ بھی 2005 میں بند کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح 1987 میں راجیو گاندھی سمیت کئی سیاسی رہنما سویڈش کمپنی بوفورس اے بی سے رشوت لینے کے معاملے میں پھنس گئے تھے۔ معاملہ یہ تھا کہ بھارتی 155 ایم ایم۔ کے فیلڈ ہاویٹزر کی بولی میں مذکورہ سیاستدانوں نے تقریباً 64 کروڑ روپے کا فراڈ کیا تھا۔اس پورے معا ملے کی انکوائری کی گئی تھی اور جو قصوروار تھے انہیں سزا بھی ملی تھی۔1992 میں ہرشد مہتا نے دھوکہ دہی سے بینک کا پیسہ اسٹاک مارکیٹ میں لگایا، جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ کو تقریباً 500 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔1996 میں اس وقت کے بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو اور دیگر لیڈروں نے مبینہ طور پر ریاست کے محکمہ مویشی پالن سے دھوکہ دہی سے حاصل کیے گئے 950 کروڑ روپے ہڑپ کر لئے تھے اور آج بھی ان پر مقدمہ چل رہا ہے اور کئی مہینوں کی سزا کاٹ کر بھی آچکے ہیں۔2009 میں مدھو کوڈا کو 4000 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کا مجرم پایا گیا تھا۔ مدھو کوڈا کو اس بد عنوانی کے معا ملے میں ہوٹل، تین کمپنیاں، کلکتہ میں جائیداد، تھائی لینڈ میں ایک ہوٹل اور لائبیریا میں کوئلے کی کان شامل تھی،جس پر کیس چلا اور انہیں سزا بھی ہوئی تھی۔
اس طرح کے معا ملات دیکھنے اور سننے کے بعد یہ کہا کہ جا سکتا کہ اگر بدعنوانی کے الزام کسی پر بھی لگیں تو سب سے پہلے اس کو اس عہدے سے بر طرف کیا جانا چاہئے پھر پورے معاملے کی شفافیت سے انکوائری کرائی جائے،لیکن کہیں بھی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ تو میری پارٹی کے لیڈر ہیں اور ان کو ہم کیسے پھنسنے دیں اگر ایسا ہواتو سمجھ لیں کہ اسی طرح سے ملک کو نقصان ہوتا رہے گا اور ہم اس شعر کے مصداق بنیں گے۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
بدعنوانی پر حکومتوں کو سنجیدہ ہونا ہوگا: وجہ القمر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS