’آپ کا دن کیسا گزرا؟‘ یہ وہ سوال تھا جو سارا ہر روز اپنے بیٹے سے پوچھتی تھی حالانکہ اب وہ کالج کا اسٹوڈنٹ ہوگیا تھا بڑا ہو گیا تھا۔ بچپن میں تو اسے بہت اچھا لگتا تھا جب اس کی ماما اسکول سے واپسی پر اس کی سارے دن کی روداد سنتی تھیں۔ لیکن اب اس کو ماما کی یہ ہی عادت چبھنے لگ گئی تھی بہت سی باتیں ہیں جو وہ اپنی ماں سے شیئر نہیں کرنا چاہتا تھا اسے بس لگنے لگا تھا کہ اس کو اب تھوڑی آزادی ملنی چاہئے۔ صبح ماما کو بتاؤ شام کو ابا کی عدالت میں کھڑے ہو۔ اس کے خیال میں والدین کو ہر وقت اپنے بچوں کے خیالوں میں نہیں گھسے رہنا چاہئے خاص طور پر جب وہ بڑے ہوچکے ہوں۔آئیے جانتے ہیں کہ وہ کونسی عادتیں ہیں جو ہمارے بچوں کو ہم سے دور کر سکتی ہیں۔
آپ کا اپنا موڈ خراب ہونا:آپ کا موڈ کسی وجہ سے خراب ہے اور آپ اپنے بچے کو اپنے اس موڈ کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کا بچہ آپ کے پاس آتا ہے کھیلنے کے لئے یا کوئی ضروری بات کرنے لیکن کیونکہ آپ کا موڈ خراب ہے تو آپ یا تو اس کو ٹال دیتے ہیں یا اپنا غصہ اس پر اتار دیتے ہیں۔ ہم سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بچہ ہے لیکن وہ ہماری ہر حرکت کو نوٹ کر رہا ہوتا ہے اور کچھ عرصے بعد وہ اسی مزاج کو اپنا کر آپ کو ٹالنا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح آپ بچے کی نظر میں اپنی اہمیت کھوتے جاتے ہیں۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔
بغیر دیکھے جواب دینا:دوسری چیز جو بہت عام ہے‘ مائیں عموماً ایک ساتھ بہت سے کام نمٹاتی ہیں۔ بچہ جب ماں یا باپ کے پاس کوئی بات کرنے آتا ہے تو ہم کچن میں ہیں یا کوئی اور کام کر رہے ہیں، ہم بچے کی طرف دیکھے بغیر کہتے ہیں بتائیں میں سن رہی ہوں / سن رہا ہوں۔ بچہ اس وقت بہت مایوسی محسوس کرتا ہے اس کے خیال میں اس سے زیادہ اس کام کی اہمیت ہے۔ اگر ہم کچھ دیر کے لئے رک کر بچے سے آنکھ ملا کر بات کر لیں گے تو ایک تو بچے کا اعتماد بحال ہوگا اور وہ اپنے آپ کو اہم سمجھے گا۔ بچوں کے بھی بڑوں کی طرح کے احساسات ہوتے ہیں۔
ایک ہی سوال بار بار کرنا:ایک ہی سوال بار بار کرنا یا کوئی کام کروانا ہے تو بار بار انھیں یاد دلانا کہ آپ نے یہ کام کرنا ہے۔ اس طرح اس بات کی اہمیت نہیں رہتی اور بچہ سوچتا ہے کہ ان کو بار بار دہرانے کی عادت ہے وہ چڑچراپن محسوس کرتا ہے۔ نفسیات میں یہ ایک کمزور شخصیت کی نشانی ہے آپ اپنی بات کو اس وقت دہراتے ہیں جب آپ کو خود پر بھروسہ نہیں ہوتا کہ آپ اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ کہا جائے اور بس دوسری دفعہ پوچھ لیا جائے کہ آپ نے یقیناً یہ کام کر لیا ہوگا۔ اس طرح وہ کام نہ بھی ہوا ہو تو سامنے والا شرمندگی میں کر دے گا اور آپ کی بات کا مان بھی رہ جائے گا۔
بچے کی بات کا مذاق اڑایا جائے: وہ ہم سے کوئی سنجیدگی کے ساتھ بات کر رہا ہو لیکن ہم دوستانہ یا cool والدین بننے کے لئے اس کی بات کو ہنسی میں اڑا دیں۔ یہ کرنا بچے میں غصہ پیدا کرنا ہوتا ہے وہ اگلی دفعہ یہ ہی سوچے گا کہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ ہنسی میں اڑا دی جائے گی۔
اپنے بچے کی باتوں کا دوسروں کے سامنے ذکر کرنا:اپنے بچے کی کہی گئی ذاتی نوعیت کی باتوں کا دوسروں کے سامنے ذکر کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت کیوٹ حرکت ہے اور پھر اس کا ذکر کھلے عام کر دیتے ہیں جبکہ بچے نے تو آپ کو اپنا راز بتایا تھا اور آپ کو راز دار رہنا چاہئے۔ جس طرح ہماری ایک نجی زندگی ہوتی ہے ہم اپنے بہت سے معاملات کا لوگوں کے سامنے اشتہار نہیں چاہتے بالکل اسی طرح بچے بھی لوگوں کے سامنے اپنی تشہیر نہیں چاہتے۔
کچھ نیا کرنے کی خواہش:بچے بڑے اعتماد کے ساتھ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کیونکہ ان کی سیفٹی چاہتے ہیں تو آپ ان کو روکتے ہیں۔ یہ بہت زیادہ حفاظت کرنے والے والدین کا مسئلہ ہوتا ہے جو اپنے بچوں کے سب کام خود کرنا چاہتے ہیں اور اگر بچہ خود کرنے کی کوشش کرے تو ان کو لگتا ہے کہ بچہ آزادی چاہتا ہے اور ان کی اہمیت بچے کی زندگی میں کم ہو جائیگی یا بچے کو کوئی نقصان پہنچ جائے گا والدین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کا بچہ بڑا ہو رہا ہے وہ سیکھے گا نہیں یا با اعتماد نہیں ہوگا تو دوسرے بچوں سے پیچھے رہ جائے گا۔ بچوں پر وقت کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں ڈالنی چاہئیں تاکہ وہ پر اعتماد شخصیت کے مالک بنیں۔
اپنے بچے کا مقابلہ دوسرے بچوں کے ساتھ کرنا:اپنے بچے کا مقابلہ خاندان کے دوسرے بچوں کے ساتھ کرنا یا اس کے اپنے بہن بھائیوں سے کرنا۔ عموماً والدین بچے کو ایک چیلنج دینے کے لئے ایسا کرتے ہیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے بچے میں جو اچھی خصوصیات ہوتی ہیں وہ بھی اس عادت کی وجہ سے دب جاتی ہیں۔ مقابلے بازی میں وہ اپنی خود اعتمادی کھو دیتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں کچھ صحیح نہیں کر سکتا۔
یہ ساری وہ عام عادتیں ہیں جو ہم انجانے میں کسی نہ کسی طریقے سے کر رہے ہوتے ہیں ضروری تو نہیں ہر کوئی اچھی تربیت کرنا جانتا ہو لیکن ہونا یہ چاہئے کہ جہاں بچوں کی پڑھائی اہمیت رکھتی ہے وہیں والدین کے لئے بھی اسکولوں کی طرف سےا چھےتربیتی پروگرامز بالکل فری منعقد کئے جانے چاہئیں۔ ہر دور کے اپنے مسائل ہوتے ہیں آج کے مسائل ماضی کے مسائل سے بالکل مختلف ہیں اس لئے ان مسائل کے حل کے لئے اور اچھی پیرنٹنگ کے لئے فری ٹریننگ وقت کی ضرورت ہے، حکومت کو بھی اس سلسلے میں کوئی مؤثر اقدام کرنے چاہئیں۔ll