مسلمانان عالم کے وقار میں عالمی پیمانے پراضافہ: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

سفارت کاری نام ہے ما ضی کی تلخیوں کو بھلاکر،مصلحتاً ہی سہی، مثبت وصحت مند سفارت کاری و سیاستدانی کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور محض مطلب براری، موقع شناسی اور جوڑ توڑ کو اپنا شیوہ نہ بنا کر، اپنی ضرورت اور ملک کے مفاد کو ہمہ وقت دماغ میں رکھتے ہوئے خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کا اور دیگر ممالک سے اپنے تعلقات کے معاملہ میں اعتدال پسندی سے کام لیتے ہوئے اور’ سب سے دوستی، کسی سے دشمنی نہیں‘ کے اصول کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سب کے ساتھ اس طرح کا تعلق رکھنا کہ کسی بڑی طاقت کی جانب جھکاؤ ہونے کے باوجود ضرورت سے زیادہ جھکاؤ نظر نہ آئے حالانکہ سلجھے ہوئے سفارت کار اس طرح کی پوشیدہ اشارتی زبان اور طرز عمل کو پہلی ہی نظر میں بھانپ لیتے ہیں مگر سفارتی، سیاسی، اقتصادی، انتخابی اور کبھی مستقبل بعید کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاموشی کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں۔
اب دنیا کے مسلمانوں نے بھی کسی حد تک اس بات کو سمجھنا شروع کردیا ہے کہ اعتدال پسندی ہی بہتر راستہ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب تک اپنی اس روش پر قائم رہتے ہیں۔ سعودی عرب کی مسلم ممالک میں مرکزیت تو پہلے سے ہی معترف بہ ہے لیکن اب دنیا کی سیاست اور اقتصادی معاملات میں سعودی عرب جو رول آج ادا کر رہا ہے، وہ اس کی اعتدال پسندی اور اعلیٰ درجہ کی سفارتی فکر کا بین ثبوت ہے۔ آج امریکہ، چین اور روس بیک وقت تینوں کو اس کی ضرورت ہے، کسی کو سیاسی نقطۂ نظر سے، کسی کو دفاعی نقطۂ نظر سے تو کسی کو اقتصادی نقطۂ نظر سے۔مشرق وسطیٰ،یمن، یوکرین، فلسطین،سوڈان اور ایران کے حوالے سے جو مثبت رول اس نے ادا کیا ہے، وہ یقینی طور پر قابل تحسین ہے۔اب عالمی پیمانے پر مسلمانوں کے ساتھ ناروا برتاؤ میں بھی قدرے کمی آئی ہے اور اب دہشت گردی کے ہر واقعہ کو مسلمانوں سے منسوب بھی نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ اب دیگر کے دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت باقاعدہ ناموں اور مذہبی شناخت کے ساتھ سب کے سامنے آرہے ہیں اور میڈیا بھی اس ضمن میں بخل سے کام نہیں لے رہا ہے۔
arabianbusiness.com کی 21فروری، 2023 کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے گزشتہ سات دہائیوں میں160 ممالک کو95بلین امریکی ڈالر کی مد د کی ہے۔ علاوہ ازیں ہنگامی صورت حال اور شدید قدرتی آفات میں بھی وہ متاثر ممالک کو بغیر کسی امتیاز کے ہر طرح کی یعنی مالی و مادی امداد دیتا رہا ہے۔ کسی سے اگر دفاعی و سرحدی اختلافات بھی ہوئے ہیں تو اس نے انہیں ایک اچھے طریقہ سے نمٹانے کی کوشش کی ہے۔
سیاسی حالات کس طرح کروٹ لیتے ہیں، یہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا۔کیا کبھی کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ مبینہ طور پر ایران روس کی اپنے ڈرون بھیج کر مدد کرے گا؟ کیا روس کی پاکستان اور ترکیہ سے موجودہ بحران میں حمایت حاصل کرنے کی کوشش قابل حیرت نہیں؟اگرچہ ترکیہ نے روس و یوکرین کے مابین جنگ کے دوران کافی اعتدال پسندی سے کام لیا ہے لیکن اس نے روس کو دفاعی اعتبار سے کافی اہمیت و صلاحیت والے ہتھیاراور ڈرون بھی دیے ہیں۔دیگر مسلم ممالک بشمول ملیشیا، بنگلہ دیش، دبئی وغیرہ کا رویہ غیر جانبدارانہ رہا۔جہاں تک ہندوستان کی بات ہے، اس نے کسی کا کھلم کھلا ساتھ دینے کے بجائے امن قائم کرانے اور دونوں ممالک کو جنگ کا راستہ اختیار نہ کرنے اور تمام تنازعات کو پرامن طریقہ سے حل کرنے کی برابر صلاح دی۔ تمام تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود آج بھی ہندوستان، چین اور دیگر ممالک روس سے تیل خرید رہے ہیں۔
ہمارے ملک ہندوستان کے امریکہ و انگلینڈ میں مقیم لوگوں کو وہاں کی سیاسی و سفارتی حصولیابیاں ملنے کا سلسلہ کافی عرصہ سے چلا آرہا ہے لیکن اب ان ممالک میں مسلمانوں کو قدرے زیادہ بہتر حصہ داری دی جا رہی ہے۔ آج جہاں ہمارے ملک میں چند شرپسند عناصر اور یہاں تک کہ کچھ سمجھدار لوگوں کو بھی کبھی کبھی اذان کی آواز بری لگنے لگتی ہے تو وہاں امریکہ کے کچھ حصوں میں باقاعدہ اذان دینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔امریکہ مسلم ممالک اور ہندوستان کو چین سے دور رکھنے کے لیے ان کے قریب ترین آنے کی کوشش کر رہا ہے مگر کبھی کبھی کنفیوزڈ نظر آتا ہے۔کبھی سعودی عرب تو کبھی پاکستان کو آنکھیں دکھانے لگتا ہے لیکن جب سیاسی و دفاعی ترجیحات کی بات آتی ہے تو وہ انہیں اپنے نظر آنے لگتے ہیں۔ اب مسلم ممالک بھی کافی ہوشیار ہو چکے ہیں، ان کی کوشش یہی ہے کہ وہ روس، چین اور امریکہ سب سے اچھے تعلقات رکھیں۔اسی طرح وہ ممالک بھی جو پاکستان کے قریبی رہے اور سیاسی معاملات میں کتنے ہی فورموں پر اس کا ساتھ دیتے رہے ہیں،وہ بھی اپنے اقتصادی مفادات کے مدنظر ہندوستان کے قریب آرہے ہیں۔آج کی دنیا میں مذہبی یا ثقافتی قربت کی اہمیت تو ضرور ہے مگر پہلے بازار ہے۔
آج جب ہندوستان کو چین سے تجارتی تعلقات رکھنے میں تامل محسوس ہو رہا ہے تو اسے بھی اقتصادی و سیاسی نقطۂ نظر سے دوسرے متبادل تلاش کرنے ہوں گے۔آ ج ہندوستان کا خلیجی ممالک سے تجارت کا گراف بہت تیزی کے ساتھ اوپر جا رہا ہے۔ 2020-21 میں ان ممالک کے ساتھ تجارت تقریباً دو گنی ہوگئی اور اب یہ بڑھ کر ڈیڑھ سو بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت ان ممالک کو ہماری برآمدات، ہماری کل برآمدات کا10 فیصدہیں اور مستقبل قریب میں ان میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔آج اگر خلیجی ممالک کو کسی بھی نقطۂ نظر سے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے تو ہندوستان بھی اپنا ہاتھ بڑھانے کے لیے مجبور ہے۔اسے صرف ان سے تیل ہی نہیں چاہیے بلکہ ان ممالک میں کام کررہے ہندوستانیوں سے ہر سال سیکڑوں بلین ڈالر حاصل ہو رہے ہیں اور یہ ہندسہ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔یہ ایک اچھاشگون ہے۔یہی وہ وجوہات و عوامل ہیں جو یہ ممالک ہمارے حکمرانوں کو خطابات سے نواز رہے ہیں۔آج کے شیخ وہ شیخ نہیں جنہیں کبھی ہندوستانی فلموں میں ایک مخصوص انداز میں دکھایا جاتا تھا۔ یہ آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسی عالمی اہمیت کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر کے آ رہے ہیں اوروہ ہر میدان میں خوا ہ سیاست ہو یا تجارت تکنیکی معلومات سے مکمل طور پر لیس ہیں۔وہ زیر لب مسکراتے ہوئے فریق ثانی کی اشارتی زبان اور تحریروں میں بین السطورپنہاں پیغامات کو بخوبی سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر وہ اپنے ملک میں مقیم ہندوستانیوں کو، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، اپنے بہت قریب مانتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیاز نہیں برتتے۔
دریں صورت یہ امید کی جانی چاہیے کہ اسلامو فوبیا اور اس قسم کے فوبیاؤں کو اب پنپنے نہیں دیا جائے گا مگر انگلینڈ میں ہندو بچوں کے ساتھ ناروا برتاؤ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں گرودواروں، مسجدوں اور دیگر عبادت گاہوں پر حملوں کی خبریں اس بات کا اشارہ کر رہی ہیں کہ ابھی بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS