خواجہ عبدالمنتقم
کسی نہ کسی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور عالمی انسانی حقوق کونسل(سابقہ عالمی انسانی حقوق کمیشن) ، جسے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی عمل آوری پر نظر رکھنے اور مانیٹرنگ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کی لاچاری پر وقتاً فوقتاً چہارطرفہ آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق سے وابستہ اقوام متحدہ کے دیگر کلیدی اداروں کی طرح عالمی انسانی حقوق کونسل کے بارے میں ناقدین کا کہناہے کہ اس کی حیثیت کسی ملک کے ایک ایسے ادارے کی سی ہے کہ اگر اسےgolden zeroیعنی شروع میں لگنے والا صفر یا Paper Tigerکہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ کونسل انسانی حقوق کی شدید پامالی کی صورت میں متعلقہ ملک کی بابت مذمتی تجویز تو منظور کرسکتی ہے لیکن اس پر عمل کرانے کے لیے اسے نہ کوئی اختیارات حاصل ہیں اور نہ اس کے پاس کوئی میکانزم ہے۔اس کی حیثیت اس واعظ کی سی ہے جو سامعین کو راہ مستقیم پر گامزن ہونے کی ہدایت دیتا ہے اور اچھی اچھی باتیں بتاتا ہے لیکن اگر سامعین اس کی بات کو نہ مانیں تو بے چارہ واعظ کیا کرسکتا ہے ۔ کیا میانمار ، شام، یمن اور برونڈی سے متعلق تجاویز سے کسی بھی مسئلہ کا کوئی مستقل حل نکلا؟کیا 2018 میں اسرائیل کی مذمت کے خلاف امریکہ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کونسل سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی؟ یوکرین میں ’ جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا‘۔کیا روس کو اس کونسل سے معطل کرا کر یوکرین کی صورت حال میں کوئی تبدیلی آئی؟ علامہ اقبال نے صحیح ہی کہا تھا کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر تو کٹ سکتا ہے لیکن مرد ناداں پر کلام نرم و نازک کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ جب کونسل اپنے ہر دلعزیز ارکان کی ایما پر کچھ مخصوص حالات میں اپنی شیر دلی اور جرأت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے کسی ملک کے خلاف کوئی مذمتی تجویز منظور کرتی ہے تو سیکورٹی کونسل کی طرح اس تجویز کو ویٹو کرنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں اور ایسی صورت میں وہ ملک بھی جس کے خلاف تجویز منظور کی جا رہی ہو، بے بس نظر آتا ہے البتہ اس پر سیاسی دباؤ ضرور پڑتا ہے۔ہاں اگر فلسطین کا معاملہ ہو تو علامہ اقبال کا متذکرہ بالا شعر اپنی عملی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ آئیے اب اس بات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کونسل کب، کیوں اور کس طرح قائم کی گئی۔
اقوام متحدہ کا قیام آنے والی نسلوں کو جنگ وجدل سے محفوظ رکھنے، انسانی عظمت کے تحفظ، تمام لوگوں کومساوی حقوق عطا کرنے اور تمام اقوام کو، خواہ وہ بڑی ہوں یا چھوٹی، برابر کا درجہ دینے اور تمام بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے منشور میں تمام ممالک سے یہ توقع کی گئی تھی کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے مراسم رکھیں گے اور بلا ضرورت طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ علاوہ ازیں ان سے یہ بھی توقع کی گئی تھی کہ تمام ممالک اپنے عوام کی معاشی، ثقافتی ومعاشرتی ترقی کے لیے تمام ممکنہ اقدام کریں گے تاکہ عوام ایک بہتر دنیا میں پرسکون اور باوقار زندگی گزارسکیں اور یہ دنیا ایک ایسی دنیا ہو جس میں کسی بھی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہ برتا جائے بلکہ انسانی حقوق و بنیادی آزادیوں کا مکمل احترام کیا جائے۔
اقوام متحدہ کے منشور کے اغراض ومقاصد کو پورا کرنے کی غرض سے خصوصاً انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری معاشی اور سماجی کونسل (ECOSOC)کو سونپی گئی تھی جس کی کوششوں کے نتیجے میں 12فروری،1946 کو جنرل اسمبلی کی منظوری سے انسانی حقوق کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدا میں یہ کمیشن 18ارکان پر مشتمل تھا۔ ہر فریق مملکت نے اس کے لیے اپنے اپنے ارکان کو منتخب کیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور اب یہ تعداد 47 سے زیادہ ہوچکی ہے۔ 15 مارچ 2006 کو اس کمیشن کو کونسل کا نام دے دیا گیا۔
کمیشن کودیگر باتوں کے ساتھ ساتھ ا س بات کا بھی حق دیا گیا تھا کہ اگر کہیں پر انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہوتی ہے اور خلاف ورزی کی بابت معقول ثبوت وشہادت پیش کی جاتی ہے تو وہ قصوروار فریق کے خلاف مناسب کارروائی کرے۔ یہ کمیشن، جیساکہ اوپر کہا گیا ہے، 1946 میں قائم کیا گیا تھا لیکن اس نے اپنا کام جنوری 1947 میں شروع کیا۔ اس کمیشن کی بنیادی ذمہ داری انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں کارروائی کرنے سے زیادہ مملکتوں کو مشاورت وصلاح اور ہدایات جاری کرنے کے کام کو فوقیت دینا تھا اورکئی دہائیوں تک کمیشن اسی قسم کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اگرچہ ناقدین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے شکار لوگ اس کمیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں لیکن پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کمیشن نے تمام ممالک میں معاشرے کے کمزور طبقوں، بچوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے معاملے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی حکومت ہو، خواہ وہاں کوئی بھی طرز حکومت ہو، جس نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری تدابیر، جس میں قانون سازی یا موجودہ قوانین میں ترمیم یا ترامیم بھی شامل ہیں، نہ کی ہوں۔
یو این انسانی حقوق کمشنر: یو این جنرل اسمبلی نے 20دسمبر 1993 کو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے کمشنر کا عہدہ بھی قائم کیا تھا۔ کمشنرکو دیگر اختیارات کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی:
٭ تمام دنیا میں انسانی حقوق کی مکمل عمل آوری میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تدارک کے سلسلہ میں موثر کردار ادا کرنا۔
٭ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق مشینری کو مزید موثر اور مستحکم بنانے کیلئے کوشاں ہونا۔
٭ تمام حکومتوں سے انسانی حقوق کے احترام کے سلسلے میں بات چیت کرنا۔
٭ انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا۔
ہائی کمشنر اپنی رپورٹ ہر سال انسانی حقوق کمیشن کو بھیجتا ہے اور معاشی اور سماجی کونسل کے توسط سے اسے جنرل اسمبلی کو بھی ارسال کیا جاتا ہے۔ ہائی کمشنر جو پالیسی وضع کرتا ہے اس پر عمل آوری کا کام جنیوا میں قائم مرکز برائے انسانی حقوق (Human Rights Center) کرتا ہے۔ یہ مرکز حکومتوں کو تکنیکی معلومات فراہم کرتا ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق پروگراموں کی عمل آوری پر نظر رکھتا ہے۔ ویانا اعلامیہ اور عالمی کانفرنس برائے انسانی حقوق میں اس مرکز کو اور مضبوط بنانے کی بات کہی گئی تھی تاکہ وہ مستقبل قریب میں زیادہ موثر اور اہم کردار ادا کرے مگر یاد رہے کہ کوئی بھی ادارہ تب تک فعال کردار ادا نہیں کرسکتاجب تک اسے اپنے فیصلوںپر عملدرآمد کرانے کا اختیار نہ ہو اور عمل درآمدگی کے لیے مضبوط میکانز م نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تو اقوام متحدہ کے وجود اور اس کی کارکردگی بھی سوالات کے گھیرے میں ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]