ایک طرف تو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے سائنس داں بنیں، ڈاکٹر، انجینئر بنیں، اسپیس سائنس کی کسی شاخ کے ماہر بنیں اور دوسری طرف ان کی باتیں سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ کسی بڑی شخصیت کے گھر پر آنے پر انہیں ان کے ساتھ بیٹھنے نہیں دیتے، بہت ہوا تو ان کا تعارف کراکر ماں کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ بچوں کے اوٹ پٹانگ باتیں کرنے سے ان کی بے عزتی ہوگی۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ بچے اگر بڑوں کی طرح باتیں کرنے لگیں گے، سوچ سوچ کر بولیں گے تو پھر وہ بچے کیوں کہلائیں گے، بولنے کا انداز تو ایک عمر گزرنے کے بعد ہی آتا ہے، البتہ ان لوگوں کے ساتھ بچوں کو بیٹھانے سے گریز کرنا چاہیے جن کے لیے اپنے بچے ہی بچے ہوتے ہیں، غیر کے بچوں کو وہ بچہ نہیں سمجھتے، ان پر بیجا تنقید کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے پر بچے مایوسی اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں، وہ بدتمیزی سے جواب دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، کیونکہ عزت نفس کا خیال انہیں بھی ہوتا ہے، البتہ وہ خود اس احساس کو سمجھ نہیں پاتے۔ ولیم ورڈس ورتھ نے یوں ہی نہیں لکھا ہے، ’The child is the father of the man۔‘ اسے سمجھنا ہوگا۔ اچھی اور بڑی شخصیتوں کے ساتھ بیٹھنے کا بچوں کو فائدہ ملتا ہے۔ مختلف علوم کے ماہرین کے ساتھ بیٹھنا، ان سے باتیں کرنا، اپنے آئیڈیاز کو ان کے سامنے رکھنا بچوں کی سوچ کو ایک سمت دیتا ہے، ان کے اندر کچھ بننے،کچھ کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، چنانچہ یہ سمجھنا ناقابل فہم نہیں کہ بھارت کو مستحکم بنانے کے لیے اے پی جے عبدالکلام بچوں کو کیوں بہت اہمیت دیتے تھے، ان سے ملنا اور باتیں کرنا پسند کرتے تھے، انہیں سمجھاتے تھے، یہ پوچھتے تھے کہ انہیں کیا بننا ہے اور پھر بتاتے تھے کے اس کی تیاری کیسے کرنی ہے۔n
بچوں کے آئیڈیا زکو سمت دیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS