غزہ جنگ : روس نے موقف واضح کر دیا

0

محمد عباس دھالیوال

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس چیز کو آج عروج حاصل ہے، کل اس کو زوال کا منہ لازماً دیکھنا ہے، کیونکہ ہر دوپہر کو شام میں تبدیل ہونا ہے۔ یہی قدرت کااصول ہے، فطری تقاضا ہے۔ بات اگر روس کی کریں تو کوئی ایک وقت تھا جب امریکہ اور سوویت یونین دنیا کی دو عظیم قوتیں تسلیم کی جاتی تھیں اور پورے عالم میں ایک طرح سے ان کی طوطی بولتی تھی لیکن جیسے ہی 90 کی دہائی میں سوویت یونین کا بکھراؤ ہوا تو امریکہ نے اپنی طاقت سے پوری دنیا کو اپنے زیر اثر کرنے کی کوشش کی لیکن چین کے ابھار اور روس کے مضبوط ہونے کی وجہ سے اب دنیا کچھ متوازن ہوتی نظر آرہی ہے۔رقبے کے لحاظ سے روس آج بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ صدی کے آغاز سے روس کے سیاسی نظام پر ولادیمیر پوتن کا غلبہ رہا ہے۔ روس پڑوسی ریاستوں میں متعدد فوجی تنازعات میں ملوث رہا ہے۔2014 میں اس نے ہمسایہ ملک یوکرین سے کریمیا کو الگ کرکے اپنے ساتھ الحاق کیا ہے۔ اس کے بعد 2022 میں روس نے یوکرین کے خلاف باضابطہ جنگ چھیڑی جو ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور اس کے جلد ختم ہونے کا امکان بھی نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ یوکرین کے ساتھ امریکہ اور اس کے کئی اتحادی ممالک ہیں۔
7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی تھی جو رکنے کا نام لے رہی ہے۔ روس سمیت کئی ممالک نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کروانے کی کوشش کی ہے لیکن اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے غزہ کی جنگ ختم نہیں ہو سکی ہے۔ گزشتہ روز ماسکو میں اسرائیل کے سفیر بن تزوی کے’روسی شہریوں کے غزہ سے انخلا کے لیے دو ہفتوںکی ضرورت ہے۔‘سے متعلق بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاہرووا نے کہا ہے کہ اسرائیلی سفیر کے الفاظ حیرت انگیز اور ناقابل قبول ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیلی سفیر کے بیان نے ہمیں حیران کر دیا ہے۔ اس کے مطابق غزہ سے انخلا کے خواہش مند روسی شہریوں کی فہرست کی تیاری میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ ہم اس منطق کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے۔‘فرانسیسی صدر ایمینوئل میکروں کی علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی اتحاد کی تشکیل کی تجویز پر زاہرووا کا کہنا ہے کہ ’یہ تجویز مشرق وسطیٰ میں مسلح جھڑپوں کو پیچیدہ بنانے اور دیگر ممالک کو بھی مسئلے کی لپیٹ میں لانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ فرانس مسائل کی جڑ کا ادراک نہیں کر پا رہا ہے۔‘ ان کے مطابق، ’اگر فرانس غزہ میں جنگ بندی اور خوں ریزی کے سدباب کے لیے حقیقی معنوں میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اس وقت ہمارے اختیار کردہ خصوصی حوالے سے فلسطین- اسرائیل اور عمومی حوالے سے مشرق وسطیٰ کے مسئلے کے سیاسی و سفارتی حل پر مبنی موقف کی حمایت کر سکتا ہے، اس لیے ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ تمام متنازع ایشوز پر بات چیت کے لیے فی الفور براہ راست مذاکرات کا آغاز کریں۔‘ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاہرووا کے مطابق، ’ہم اسرائیل کے ساتھ پر امن اور محفوظ شکل میں زندگی گزارنے والی اور مشرقی القدس کے دارالحکومت کے ساتھ1967 کی سرحدوں کے اندر قائم ہونے والی آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کے حق میں ہیں۔‘اس طرح روس نے مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کر دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کی طرح اور ممالک نے اپنا موقف واضح کیا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر وہ موقف واضح کردیں گے تو کیا اسرائیل کی اسی طرح حمایت کر پائیں گے جیسے آج کر رہے ہیں؟
ادھر ایک دیگر رپورٹ کے مطابق، غزہ سے فلسطینی شہریوں کو مصر دھکیلنے کی اسرائیلی سازش پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کے سربراہ فلپ لازارینی نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے۔ فلپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر کی طرف دھکیل دینے والے اقدامات کررہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پتہ نہیں، ان فلسطینیوں کو یہیں رہنے دیا جاتا ہے یا وہ کہیں اور بھیجے جائیں گے مگر اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی کا الزام صاف جھوٹ ہے۔ دوسری جانب خان یونس سمیت جنوبی غزہ میں اسرائیلی فوجیوں اور حماس کے مزاحمت کاروں کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ فلسطینیوں کی جانوں کے اتلاف کا سلسلہ جاری ہے۔ شہدا کی مجموعی تعداد18ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے جبکہ50 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے اعتراف کیا ہے کہ جغرافیائی تقسیم کے باعث غزہ معاملے پر سلامتی کونسل مفلوج ہو گئی ہے۔ روس کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی حمایت پر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے فون پر پوتن سے بات کی ہے اور اپنے خدشات سے آگاہ کیا ہے مگر اس کے باوجود روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے غزہ میں عالمی مبصرین کی تعیناتی کا مطالبہ ہے۔ اس سے بھی روس کی فلسطین پالیسی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ویسے غزہ جنگ پر روس نے نہ اسرائیل کو ہی بالکل خوش کرنے کی پالیسی اپنائی ہے اور نہ ہی مسلم ممالک، خاص کر عرب ممالک کوخوش کرنے کی۔ غالباً وہ بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے پتے کھولنا چاہتا ہے مگر یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ غزہ جنگ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں سے روس بالکل لاتعلق نہیں ہے۔n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS