غزہ جنگ :نتائج سے پہلے امریکہ کی شکست

0

دوسری عالمی جنگ سے امریکی لیڈروں نے یہ جدوجہد تیز کر دی تھی کہ دنیا یک محوری ہو جائے، امریکہ سپرپاور بن جائے۔ اس مقصد کے حصول میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ سوویت یونین تھا۔ اس کے دائرۂ اثرکو ختم کرنے کے لیے پہلے ٹرومین ڈوکٹرین متعارف کرایا گیا تھا، پھر مارشل پلان اور پھرناٹو کی تشکیل کی گئی تھی مگر تمام کوششوں کے باوجود سوویت یونین کے خلاف امریکہ کو وہ کامیابی نہیں مل سکی تھی جو افغان جنگ میں مل گئی۔ اس نے سوویت یونین کے خلاف افغان جنگجوؤں کی مدد کی۔ افغان جنگ کے بعد سوویت یونین بکھر گیا۔ وارسا پیکٹ تحلیل کر دیا گیا اور امریکہ نے کئی ملکوں کے ساتھ عراق کے خلاف جنگ چھیڑ کر یہ اشارہ دے دیا کہ وہ سپر پاور بن گیا ہے، دنیا یک محوری بن گئی ہے مگر 9/11 کے حملوں کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے جنگ چھیڑنے میں جلدی کی۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ افغانستان سے روس زیادہ دور نہیں ہے۔ امریکہ کی افغان جنگ میں روس وہی کردار ادا کر سکتا ہے جو امریکہ سوویت یونین کی افغان جنگ میں ادا کر چکا ہے۔ بش یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ چین، امریکہ کی جگہ لینے کے لیے بے چین ہے۔ افغانستان میں جاکر امریکہ پھنس گیا، عراق کے خلاف جنگ بھی اس کے لیے راحت افزا نہیں ثابت ہوئی۔ ان دو جنگوں نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ ناقابل شکست نہیں ہے، اس لیے ان دونوں جنگوں کی وجہ سے امریکہ کی وہ امیج نہیں رہی جو سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد تھی۔ یوکرین جنگ میں روس کے خلاف اگر امریکہ براہ راست میدان جنگ میں اتر جاتا تو اس کی امیج بہتر ہو سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، اس نے یوکرین کی اقتصادی اور دفاعی مدد اور روس پر پابندیاں عائد کرنے تک ہی خود کو محدود رکھا، کیونکہ امریکی لیڈروں کے لیے یہ بات ناقابل فہم نہیں تھی کہ ایک اور جنگ امریکہ کی اقتصادیات کے لیے ٹھیک نہیں اور اگر امریکہ، روس کے خلاف اترے گا توروس پوری طاقت کا استعمال کرے گا جبکہ امریکہ سے زیادہ ایٹم بم روس کے پاس ہیں۔ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کے خلاف کھڑے ہوکر امریکہ نے طاقت دکھانے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں اس کی رہی سہی امیج بھی خراب ہو رہی ہے، کیونکہ غزہ کوئی ملک نہیں ہے اور حماس کوئی حکومت نہیں ہے۔ امریکی لیڈروں کو غزہ کے بچوں اور خواتین کی جانوں کی پروا نہیں ہے مگر دنیا کو ہے۔یہی وجہ ہے کہ غزہ میں جنگ بندی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ووٹنگ ہوئی تو امریکہ کے ساتھ صرف 13 ممالک اور کھڑے نظر آئے جنہوں نے جنگ بندی کے خلاف ووٹ دیا۔ ان ملکوں میں ایک اسرائیل بھی تھا۔ 45 ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ان میں برطانیہ اور آسٹریلیا بھی تھے جنہیں ساتھ لے کر امریکہ نے چین مخالف گروپ اوکس کی تشکیل کی ہے۔ 120 ملکوں نے جنگ بندی کی حمایت میں ووٹ دیا۔ ان میں یوروپی ممالک بھی شامل تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کا دائرۂ اثر کیا 13 ملکوں تک سمٹ کر رہ گیا ہے اوروہ اس پوزیشن میں نہیں رہ گیا ہے کہ دیگر ملکوں پر اپنی مرضی چلا سکے؟ سچ تو یہ ہے کہ غزہ جنگ کے نتائج جو بھی آئیں، جنگ بندی پر سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے نتائج نے امریکہ کی شکست کا اشارہ دے دیا ہے اوراس بات کا بھی کہ غزہ جنگ امریکہ کے بھرم کو توڑ ڈالے گی۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS