گوتم اڈانی: سیاست،معیشت اور احتساب کے سوالات

0

گوتم اڈانی جنہوں نے اپنی کاروباری سلطنت کی بنیاد رکھنے کے بعد ہندوستان اور عالمی سطح پر اپنے لیے ایک منفرد مقام حاصل کیا،اب سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ ان پر عالمی سطح پر رشوت ستانی،دھوکہ دہی اور سکیورٹیز فراڈ جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جنہوں نے نہ صرف ان کے ذاتی کاروبار کو سوالات کے دائرے میں لادیا ہے بلکہ پورے ہندوستانی سرمایہ کاری کے ماحول اور حکومتی کارروائیوں کو بھی چیلنج کیاہے۔ اڈانی گروپ کے خلاف یہ الزامات سیاسی، اقتصادی اور ادارہ جاتی سطح پر پیچیدہ سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ ان الزامات کی نوعیت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا اثر صرف ایک کاروباری شخص پر نہیں، بلکہ ملک کی سیاسی اور اقتصادی سالمیت پر بھی مرتب ہو رہا ہے۔

گوتم اڈانی اور ان کے گروپ پر امریکہ میں یہ الزامات لگائے گئے ہیںکہ انہوں نے اپنی کاروباری سرگرمیوں کو بہتر دکھانے کیلئے امریکی سرمایہ کاروں کو گمراہ کیا اور ہندوستان میں سولر پاور پروجیکٹ حاصل کرنے کیلئے حکومتی افسران کو رشوت دی۔ ہرچند کہ اڈانی گروپ نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور انہیں بے بنیاد قرار دیا ہے، تاہم اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ نہ صرف اڈانی گروپ کی کاروباری اخلاقیات پر سوال اٹھاتے ہیں بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر کاروباری تعلقات میں شفافیت کی کمی اور مالیاتی اداروں کی سالمیت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان الزامات میں کوئی حقیقت ہے تو اڈانی گروپ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جارہی ہے ؟کیا اڈانی گروپ اور ان کے قریبی حلقوں کے اثرات اتنے طاقتور ہیں کہ وہ قانونی گرفت سے بچ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب نہ صرف اڈانی کے کاروباری کردار کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے بلکہ یہ ملک کے تمام کاروباری اداروں اور ان کے ساتھ جڑے حکومتی تعلقات کے بارے میں بھی اہم سوالات اٹھاتا ہے۔
ان الزامات کے درمیان ہندوستان کی سیاست کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے کئی بار وزیراعظم نریندر مودی اور گوتم اڈانی کے درمیان تعلقات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ راہل گاندھی کا دعویٰ ہے کہ اڈانی نے اپنے کاروباری مفادات کو بڑھانے کیلئے بی جے پی اور وزیراعظم مودی کی مدد حاصل کی۔ ان کے مطابق،اگر اڈانی پر لگائے گئے الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ اڈانی کی کامیابیاں صرف ان کی کاروباری صلاحیتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی تعلقات کے نتیجے میں ممکن ہوئیں۔

راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر اڈانی گروپ کے خلاف تحقیقات کو روکنے کی کوشش کی ہے،جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی سطح پر اڈانی کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں،سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اڈانی واقعی مجرم ہیں تو انہیں قانون کے دائرے میں کیوں نہیں لایا جا رہا؟ کیا حکومت کا کاروباری طبقے کے ساتھ ایسا تعلق ہے جس میں قانون کی عملداری کمزور ہوجاتی ہے؟ اگر حکومت اپنے سیاسی مفادات کیلئے کاروباری افراد کو تحفظ فراہم کرتی ہے تو یہ ملک کے اداروں کی سالمیت پر ایک گہرا سوالیہ نشان ہے۔

اس تمام معاملے میں ہندوستانی اداروں کی آزادی اور ان کے کام کرنے کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ اگر امریکی ادارے اڈانی گروپ کے خلاف تحقیقات کر رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اس نوعیت کی تحقیقات کیوں نہیں ہو رہی؟ کیا ہندوستان کے ریگولیٹری ادارے،جیسے کہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا(SEBI) اور سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (CBI)، اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ اڈانی جیسے بڑے کاروباری گروپ کے خلاف کارروائی کرسکیں؟ اس کے علاوہ،کیا ان اداروں میں اتنی آزادی ہے کہ وہ کسی بھی طاقتور کاروباری شخصیت کے خلاف غیرجانبدارانہ طور پر تفتیش کر سکیں؟حکومتی اداروں پر عوام کا اعتماد اس وقت ٹوٹنے لگتا ہے جب ان کے اقدامات اور فیصلے سوالات کے دائرے میں آجاتے ہیں۔ اگر اڈانی گروپ کے خلاف ہونے والی تحقیقات ہندوستان کے اندر نہیں ہو سکتیں تو یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے ادارے یا تو سیاسی اثرات سے آزاد نہیں ہیں یا پھر ان کی طاقت اتنی کمزور ہے کہ وہ بڑے کاروباری گروپوں کے خلاف کارروائی نہیں کرپاتے۔ اس طرح کا عدم اعتماد پورے ملک کے اقتصادی ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے اور یہ سوالات اٹھاتا ہے کہ ملک کے اندر کاروباری بے ضابطگیوں پر کارروائی کرنے کی صلاحیت کس حد تک موجود ہے۔

یہ معاملہ گوتم اڈانی یا ان کے گروپ تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ یہ پورے ہندوستان کے کاروباری ماحول اور حکومت کی حکمرانی کے اصولوں پر ایک کڑی نگاہ ڈالنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر ہم اپنے اداروں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان الزامات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مستقبل میں اس طرح کی بدعنوانیوں کا سدباب کیا جاسکے۔ اگر کاروبار اور سیاست کے تعلقات میں شفافیت لائی جائے اور حکومتی ادارے غیر جانبدارانہ طور پر اپنے کام کریںتو ہی عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور ہندوستان میں ایک مستحکم اور شفاف کاروباری ماحول قائم ہو سکتا ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS