امام علی مقصود فلاحی
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
ہندوستان میں بیسویں صدی کے اوائل میں اہنسا کے دم پر جد وجہد،آزادی کی لڑائی لڑنے والے ہیروز کی جب بات کی جاتی ہے تو بابائے قوم مہاتما گاندھی کا نام سر فہرست نظر آتا ہے۔بیشک آج مہاتما گاندھی ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن آج بھی وہ لوگوں کے قلوب میں بسے ہوئے ہیں۔
دیش میں آج بھی آپ کو احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے آپ کو بابائے قوم(راشٹر پتا) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے بھی دنیا کے عظیم رہنماؤں میں سے جیسے کہ مارٹن لوتھر کنگ، نيلسن مينڈيلا سے لے کر بوراک اوبامہ تک نے آپ (مہاتما گاندھی) کو اپنے ليے ايک مثالی شخصيت قرار ديتے ہوئے اپنا آئیڈیل تسلیم کیا ہے۔
مہاتما گاندھی کی تعليمات پر اگر غور کریں تو سب سے بنیادی چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ (گاندھی جی) ہمیشہ عدم تشدد يا آہنسا کے ساتھ ساتھ سچائی کے راستے پر چلنے کا درس دیتے تھے۔
قارئین! گاندھی جی امن پسندی اور صلح جوئی کے قائل تھے کیونکہ انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بدھ مت کی تعليمات کا مطالعہ گہرائی سے کيا تھا۔گاندھی نے اپنے خیالات کا اظہار ايک مرتبہ کچھ اس انداز میں کیا کہ “ميں جو کچھ ديکھتا ہوں وہ يہ ہے کہ زندگی موت کی آغوش ميں، سچائی جھوٹ کے درميان اور روشنی اندھيرے کے بيچ ميں اپنا وجود قائم رکھتی ہے، اور اس سے ميں يہ نتيجہ نکالتا ہوں کہ خدا، زندگی، سچائی اور نور ہے، اور وہ محبت اور اعلٰی ترين وجود ہے”۔
ایک اور جگہ گاندھی جی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسلام کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “مجھےپہلے سے زیادہ اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ اسلام نے تلوار کے زور پر اپنا مقام پیدا نہیں کیا، بلکہ اس کا سبب پیغمبر کا اپنی ذات کو کاملاً فنا کرنا، حد درجہ سادگی، اپنے وعدوں کی انتہائی ذمہ داری سے پابندی، اپنے دوستوں سے انتہائی درجے کی عقیدت، دلیری، بے خوفی، اپنے مشن اور خدا پر پختہ ایمان ہے”۔ ایک دفعہ “زمیندار اخبار” میں مہاتما گاندھی کے تعلق سے چھپا تھا کہ گاندھی جی اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرزِ حکومت سے بے حد متاثر تھے اور وہ ہندوستان کے حکمرانوں کو بھی یہی مشورہ دیتے تھے کہ جہاں تک ہو اہل وطن کے لیڈران بھی مذکورہ بالا خلفا سے حکومت کرنے کی سیکھ حاصل کریں۔
قارئین! یہ وہ شخصیت تھے جو ہمیشہ عدم تشدد کا درس دیتے تھے، ہر مذہب و ملت کی تعریف کرتے تھے، الفت و انسیت کا سبق سکھلاتے تھے، ملک کے عوام کو ہمیشہ خوش رکھنے اور انھیں جوڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور یہی وہ شخصیت ہیں جنکی پیدائش ریاست گجرات پور پورندر میں 2 اکتوبر 1869 کو مودھ خاندان میں ہوئی تھی۔
لیکن آج اسی گجرات کو بھگوا دہشت گردوں نے اپنے چنگل میں لے لیا ہے، جسے آج پوری دنیا آر ایس ایس اور “بی جے پی” کے نام سے جانتی ہے، یہ وہ تنظیم ہے جو بالکل مختلف ہے، جو صرف اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے، اس ملک سے اقلیتوں کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہے، مسلم، سکھ، عیسائی کو جلاوطن کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو خود اپنے ہی ہندو دھرم میں چھوت چھات کو پروان چڑھانا چاہتی ہے اور دلتوں کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہے۔ جبکہ اسی گجرات کے مہاتما گاندھی جنوبی افریقہ میں وکالت کے دوران ہی اپنے ملک کی حفاظت اور یہاں کے ہر باشندوں خواہ وہ ہندو ہو مسلم، سکھ ہو یا عیسائی ہرشخص کی حفاظت کے لئے بیقرار ہو چکے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ 1915 میں افریقہ سے ہندوستان واپس آئے اور یہاں کے شہری و مزدوروں کے ساتھ مل کر انکے اوپر ہوتے ہوئے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔
لیکن آج یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے پلے ہندو مسلم اتحاد کی دجھیا اڑا کر، اس ملک کو خالص ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، چھوت چھات کو بڑھاوا دے کر اقلیتوں کو اپنا غلام بنا رہے ہیں، لوگوں کو مذہب اور نسل کی بنیاد پر پریشان کر رہے ہیں۔
جبکہ اسی گجرات کے مہاتما گاندھی نے 1921 میں جب انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالی تو مذہبی اور نسلی تصور کو لوگوں کے ذہنوں سے خارج کرنے کی از حد کوشش کی، ملک سے غربت کم کرنے اور خواتین کے حقوق کو بڑھاوا دینے اور چھوت چھات کا خاتمہ کرنے کی بیحد کوشش کی۔
قارئین! اگر ریاست گجرات پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ کہ آج گجرات مکمل طور پر آر ایس ایس کے چنگل میں آچکا ہے، کیونکہ آج اس وقت ریاست گجرات میں بی جے پی ہی کی حکومت ہے، یہاں کا سی ایم بھی بھاجپا کا آدمی ہے، اس سے بڑھ کر بات کریں تو ملک کا وزیر اعظم نریندرمودی بھی ریاست گجرات سے ہے جو جسکے اندر بی جے پی کا کٹر پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، اسکے علاوہ ملک کے ہوم منسٹر کی بات کریں تو وہ بھی گجرات کا ہے، جو اتنا بڑا آر ایس ایس کا آدمی جو بر منظر عام یہ کہتا ہے کہ این آر سی لاگو کرنا ہے، ہندو راشٹر بنانا ہے، اور مسلمانوں کو بھگانا ہے۔ غرض یہ کہ اگر ریاست گجرات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہو جائے گی کہ گاندھی جی کا گجرات آج بی جے پی اور آر ایس ایس کے چنگل میں ہے۔
گاندھی جی اب دیکھ لیں آ کر اپنا جائے ستھان
کیسے کیسے آپ کے ہونگے چیلے بے ایمان،
اب تو اُلٹا پاٹ پڑھائیں آپ کے تینوں وہ بندر
جھوٹ ہی بولو،جھوٹ ہی دیکھو، ناچو جھوٹ کو سن کر،
مکاری ہے، عیّاری ہے، اس یُگ کی پہچان
گاندھی جی اب دیکھ لیں آ کر اپنا جائے ستھان