عبیداللّٰہ ناصر
ہندوستان
میں جی20 کے کامیاب انعقاد سے ہر ہندوستانی کو فطری طور سے خوشی ہے حالانکہ اگر خالص معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو 4200 کروڑ روپے خرچ کر دینے کے بعد ملک کے غریب عوام، بے روزگار نوجوانوں اور تباہ حال کسانوں کو کیا ملا تو جواب بابا جی کا ٹھلو ہی ملے گا، لیکن ملکوں اور قوموں کی زندگی میں ایسی ضروریات اور ایسے مواقع آتے ہیں جب سب کچھ پیسوں سے ہی نہیں ناپا جاسکتا، اگر ہر ملک اسی نہج پر سوچنے لگے تو دنیا میں کوئی بین الاقوامی کانفرنس ہو ہی نہیں سکتی۔ آج تو ہندوستان ایک بڑی معاشی طاقت ہے، آزادی کے بعد جب ملک میں کچھ بھی نہیں تھا تو ہندوستان نے افرو ایشیائی کانفرنس کی میزبانی کی تھی جس میںتقریباً56ملک شامل ہوئے تھے پھر1983 میں ناوابستہ تحریک کانفرنس کی میزبانی کی جس میں135 ملکوں کے سربراہوں نے شرکت کی تھی۔اس لیے جی20کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے لیے وزیراعظم سمیت اس کے تمام منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اسی درمیان ملک میں ضمنی انتخاب بھی ہوئے چونکہ یہ انتخابات حزب اختلاف کے گٹھ جوڑ ’انڈیا‘ کی تشکیل کے بعد اور مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم اسمبلیوں اور پارلیمانی چناؤ سے کچھ پہلے ہوئے ہیں نیز جنوبی ہند، شمال مشرق وسطی ہندوستان میں ہوئے ہیں، اس لیے سیاسی ا ور جغرافیائی طور سے خاصی اہمیت کے حامل ہیں اور آنے والے سیاسی دور کی غمازی کرتے ہیں۔ کل سات اسمبلی حلقوں میں یہ ضمنی چناؤ ہوئے تھے جن میں 4پر اپوزیشن اور تین پر بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے، کیرالہ میں کانگریس نے آنجہانی وزیراعلیٰ چنڈی کے انتقال سے خالی ہوئی سیٹ پر ان کے بیٹے کو میدان میں اتا ر کر اس سیٹ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جبکہ بنگال کی دھوپ گڑی سیٹ ترنمول کانگریس نے بی جے پی سے چھین لی، جھارکھنڈ کی ڈمری سیٹ پرحکمراں جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے اپنا قبضہ برقرار رکھا جبکہ اتراکھنڈ کی باگیشور سیٹ کانگریس محض 2400ووٹوں سے ہار گئی، اگر یہاں سماج وادی پارٹی نے اپنا امیدوار نہ اتارا ہوتا اور گٹھ بندھن دھرم کی پابندی کی ہوتی تو کانگریس بی جے پی سے یہ سیٹ چھین لیتی۔ تریپورہ میں ابھی چند ماہ قبل ہی ا سمبلی الیکشن ہوئے تھے جس میں بی جے پی کو اچھی کامیابی ملی تھی، اس لیے وہاں دو سیٹوں پر ہوئے ضمنی چناؤ میں اس کا امیدوار جیتنا ہی تھا اور جیت گئے۔
لیکن ملک بھر کے ساتوں اسمبلی حلقوں میں ہوئے ضمنی چناؤ میں سب سے زیادہ موضوع گفتگو اترپردیش کی گھوسی سیٹ تھی جس پر پورے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی ہندوستانی ہیں، ان سب کی نظریں لگی ہوئی تھیں اور یہاں نئے سیاسی گٹھ جوڑ ’انڈیا‘ کا سب سے بڑا امتحان تھا جس میں وہ شاندار طریقہ سے کامیاب ہوا۔ یہ سیٹ یہاں کے سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی دارا سنگھ چوہان کے بلا وجہ کے دل بدل اور مستعفی ہونے سے خالی ہوئی تھی، دارا سنگھ چوہان نے ریاستی کابینہ میں جگہ پانے کے لیے یہ دل بدل کیا تھا مگر گھوسی کے عوام نے ان کے خواب کو چکناچور کردیا۔ بی جے پی نے کس سیاسی ریاضی کے تحت ان کو یہ پیش کش کی تھی، یہ وہی سمجھ سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حکمت عملی بی جے پی کے نام نہاد چانکیہ امت شاہ کی تھی جو مشرقی اترپردیش میں ایک طاقتور لیڈر کھڑا کرنا چاہتے ہیں جو وزیراعلیٰ یوگی کے بڑھتے ہوئے سیاسی حوصلوں اور قد کو چھوٹا کرسکے۔ سیاسی مبصرین عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ یوگی خود کو مودی کے متبادل کے طور پر تیار کر رہے ہیں جبکہ اس جگہ پر امت شاہ کی نظر بہت پہلے سے لگی ہوئی ہے۔
بھلے ہی یہ کہا جاتا ہو کہ گھوسی کا چناؤ پوری طرح سے امت شاہ نے لڑا اور یوگی نے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی لیکن زمینی حقیقت اس کے برخلاف ہے، گھوسی میں بی جے پی نے اپنی پوری سیاسی طاقت اور یوگی نے پوری سرکاری طاقت جھونک دی تھی، خود یوگی نے آدھا درجن سے زیادہ میٹنگیں کیں، وزیروں، پارٹی کے سینئر لیڈروں، حلیفوں کے دھرندھر سب پوری طاقت سے لگے رہے، پولنگ کے دن پولیس نے اپنا وہی چہرہ دکھایا جو وہ اس سے پہلے رام پور میں دکھا چکی تھی، مسلم ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے ہر ممکن طرح سے روکا گیا جس کے کئی ویڈیو بھی وائرل ہو چکے ہیں، ان سب کے باوجود گھوسی میں بی جے پی کو شرمناک شکست ہوئی، سماج وادی پارٹی کے سدھاکر سنگھ نے بی جے پی کے دارا سنگھ چوہان کو تقریباً42ہزار ووٹوں سے ہرایا۔ شروع شروع میں تو خبر آئی کہ بی جے پی کو63ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی ہے مگر حتمی طور سے42ہزار سے شکست کا اعلان ہوا۔ سیاسی لال بجھکڑوں کا کہنا ہے کہ ضلع مجسٹریٹ پر ہر طرح سے یہ سیٹ جیتنے کا دباؤ ڈالا گیا مگر اتنا لمبا فرق ہونے کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں پائے تو شکست کا مارجن کم کرنے کا دباؤ ڈالا گیا۔ممکن ہے یہ سیاسی گپ بازی ہو مگر شکست کا یہ مارجن بی جے پی کے لیے خاص کر یوگی جی کے لیے ایک خطرہ کی گھنٹی ہے کیونکہ یہ حلقہ یوگی کا حلقۂ اثر ہے تو مختار انصاری کا بھی یہی حلقہ ہے اور دونوں کی سیاسی مخالفت اب دشمنی میں بدل چکی ہے۔
گھوسی میں بی جے پی کی شکست اور ’انڈیا‘ کی فتح نے کئی سیاسی طالع آزماؤں کی اوقات بھی بتا دی، ملک کے چند رسواترین دل بدلوؤں میں سے ایک اوم پرکاش راج بھر، جنہوں نے اکھلیش کو مین پوری واپس بھیج کر بھینس چروانے کی بات کہی تھی اور نشاد پارٹی کے سنجے نشاد جو کہتے تھے کہ پاکستان کی طرف کے بکسے کھلتے ہیں تو سماج وادی پارٹی جیت جاتی ہے مگر اس گھوسی میں یہ نہیں ہونے دیں گے، وہ چاروں خانہ چت ہیں۔گھوسی میں تقریباً90ہزار دلت ووٹر ہیں اور بی ایس پی یہاں خاصی طاقتور ہے، اس بار مایاوتی نے اپنا امیدوار تو نہیں اتارا ،مگر اپنے ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ ووٹنگ میں حصہ نہ لیں اور اگر ووٹ دینے جائیں تو نوٹا کا بٹن دبائیں۔ ان ووٹروں کو اپنا زرخرید غلام سمجھنے والی مایاوتی کی اس غلط فہمی کو گھوسی کے ووٹروں نے دور کر دیا اور پوری طاقت سے ’انڈیا‘/سماج وادی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ یہاں کے سماج وادی پارٹی کے امیدوار سدھاکر سنگھ اگر چہ ٹھاکر برادری سے ہیں مگر حلقہ کے دلت ووٹروں میں خاصے مقبول بتائے جاتے ہیں، اسی طرح کانگریس کے ریاستی صدر اجے رائے جو بھومیہر برادری سے آتے ہیں اور علاقہ میں خاصے مقبول ہیں، کانگریس کے کارکنوں نے بھی یہاں بھر پور محنت کی،ان کے ووٹروں نے بھی سدھاکر سنگھ کو کامیاب بنوانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
گھوسی کی کامیابی کو سیاسی مبصرین چچا شیوپال یادو کی انتخابی حکمت کی کامیابی قرار دیتے ہیں ،اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ چچا اس میدان کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں، ان کو نظرانداز کرنے کی غلطی اکھلیش کو بھاری پڑتی رہی ہے، اب بھی ان کو عقل آ جائے تو یہ ان کے ہی نہیں اپوزیشن کی سیاست کے لیے بھی نیک شگون ہوگا۔ اوم پرکاش راج بھر ہوں یا سنجے نشاد یا مایاوتی یا کسی ذات برادری، مذہب کا لیڈر، اسے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اس کی ذات یا مذہب کے لوگ اس کے بندھوا مزدور ہیں اور وہ جیسا چاہیںگے، اس ذات، برادری، مذہب کے ووٹر وہی کریں گے۔عوام اسی حساب سے ووٹ دیں گے جو ان کے مفاد میں ہوگا۔
گجرات کے بعد اترپردیش بی جے پی کا سب سے مضبوط قلعہ ہے۔ بی جے پی کی تمام تر امیدیں انہی دو ریاستوں سے وابستہ ہیں۔2014 میں اسے اترپردیش کی 80سیٹوں میں سے75پر کامیابی ملی تھی۔2019میں پلوامہ کے باوجود اس کی سیٹیں گھٹ کر65رہ گئی تھیں۔ 2024 میں وہ کم سے کم75سیٹیں جیتنے کا خواب دیکھ رہی ہے، لیکن گھوسی نے اس کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے، اگر یہی رجحان رہا تو بی جے پی کو40سیٹوں سے زیادہ ملنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کی رہی سہی امید فرقہ وارانہ نفرت ہے مگر یہ ہتھیار بھی کند ہوتا جا رہا ہے، لوگ اب اس سے اوب رہے ہیں، محبت اور انصاف کا فطری جذبہ سب کے نہیں تو بہتوں کے دلوں میں ابھرنے لگا ہے، مودی کی مقبولیت کا سورج بھی ڈھلان پر ہے، راہل کی نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کامیابی سے چل نکلی ہے۔ اگر ’انڈیا‘ متحد رہا، سیاسی حکمت عملی،دور اندیشی اور ایثار پر مبنی رہی ، سیکولر انصاف پسند ووٹروں نے ذات و مذہب سے بلند ہو کر ارجن کے تیر کی طرح مچھلی کی آنکھ پر ہی نشانہ مرکوز رکھا تو فسطائی فرقہ پرست عناصر کو2024میں شکست فاش ضرور ملے گی۔ ہر کمال رازو ال قدرت کا پختہ اصول ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]