عبدالماجد نظامی
انتخاب کا عمل جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ جمہوریت اپنی اصل و ماہیت کے اعتبار سے عوام کی رائے اور پسند سے نمائندوں کو منتخب کرکے پالیمنٹ میں بھیجنے کو ہی کہتے ہیں۔ یہ پہلا زینہ ہے جس کو طے کیے بغیر قانون سازی اور ادارہ سازی کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔ اگر جمہوری نظام میں عوام کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کا موقع کسی بھی وجہ سے نہیں دیا جاتا ہے تو اس سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور جو نمائندے منتخب ہونے کے بجائے سلیکٹ کر لیے جاتے ہیں ان کے تئیں عوام کا اعتماد پورے طور پر بحال نہیں ہوتا ہے۔ ہندوستان میں تو بطور خاص سیاسی لیڈران کا جو سلوک اپنے حلقۂ انتخاب کے رائے دہندگان کے ساتھ ہوتا ہے وہ اکثر غیر انسانی یا پھر جاگیر دارانہ طرز عمل کا غماز ہوتا ہے۔ سیاسی لیڈران کا ایسا برتاؤ اپنے حلقہ کے رائے دہندگان کے ساتھ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ان کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔ آپ ذرا غور کرکے دیکھیں کہ ایسے نمائندگان اپنے حلقہ کے عوام کو کس حد تک خاطر میں لائیں گے یا انہیں لائق التفات سمجھ کر ان کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا ثبوت پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا پہلو بھی انتخاب کے پروسیس اور حق رائے دہی کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ جب انتخاب کا عمل چلتا ہے تو صرف فاتح امیدوار ہی منتخب نہیں ہوتے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے امیدوار کو بھی ووٹ کی شکل میں ایک معتد بہ تعداد کی حمایت رہتی ہے۔ یہ بھی ایک کامیاب اور متوازن جمہوری نظام کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے کیونکہ ایک کامیاب جمہوریت کا تصور ایک مضبوط اپوزیشن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ سورت اور اندور میں جو کچھ ہوا کیا اس سے جمہوریت کو تقویت ملے گی؟ یا پھر اس نظام کو اندر سے کھوکھلا کرکے صرف اس کا بے جان ڈھانچہ سجاوٹ کے طور پر باقی رکھنے کا عمل کہلائے گا؟ سورت میں یہ ہوا کہ کانگریس پارٹی کے امیدوار نیلیش کمبھا نی کے پرچۂ نامزدگی کو ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر نے رد کر دیا کیونکہ تین تجویز کنندگان نے یہ شکایت درج کروائی کہ فارم پر ان کے جو دستخط پیش کیے گئے ہیں وہ دراصل ان کے نہیں ہیں۔ اس کے بعد میدان میں بی جے پی کے امیدوار مکیش دلال اور آزاد امیدوار ہی بچ گئے تھے۔ اس کے بعد آزاد امیدواروں نے اپنی اپنی امیدواری واپس لے لی اور اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کے علاوہ کوئی بھی نہیں رہا، اس لیے انہیں فاتح قرار دیا گیا۔ یہی کہانی اب اندور میں دہرائی گئی ہے جہاں سے کانگریس امیدوار اکشے کانتی بم نے اپنا پرچۂ نامزدگی واپس لے لیا ہے۔ اس کے بعد اکشے کانتی بم کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل کر لیا گیا ہے جیسا کہ بی جے پی کے لیڈر کیلاش وجے ورگیہ کے ٹوئٹ سے پتہ چلتا ہے کیونکہ ورگیہ نے اکشے کانتی بم کے ساتھ فوٹو شیئر کیا ہے اور پارٹی میں ان کے استقبال سے متعلق پوسٹ لکھی ہے۔
ان دونوں حلقہ ہائے انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے وہ جمہوری اصولوں اور طریقہ کار کے بالکل منافی ہے۔ اس قسم کے واقعات سے نامزدگی اور انتخاب کے پورے عمل پر شک کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے ظاہر ہے کہ عوام کا اعتماد انتخاب کے پورے پروسیس پر سے ہی اٹھ جائے گا یا کم از کم شک و شبہ کے احساسات دل و دماغ میں جنم لیں گے اور یہ دونوں ہی صورتیں جمہوریت کی روح کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔ اس کے بارے میں جتنی فکرمندی اپوزیشن پارٹیوں کے اندر ہونی چاہیے اتنی ہی فکرمندی برسر اقتدار پارٹی کے اندر بھی ہونا لازمی ہے۔ یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ گزشتہ تمام انتخابات کی طرح 2024 کا الیکشن بھی پورے جوش اور انہماک کے ساتھ تمام سیاسی پارٹیاں ملک کے طول و عرض میں لڑ رہی ہیں اور امید ہے کہ سورت و اندور کے واقعات مثال بننے کے بجائے محض اتفاق کے زمرہ میں ہی شمار کیے جائیں گے۔ لیکن الیکشن کمیشن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پوری گہرائی کے ساتھ اس بات کی تحقیق کرے اور پتہ لگائے کہ امیدواروں نے ان دونوں حلقۂ ہائے انتخابات میں پرچہ ہائے نامزدگی کیوں واپس لیے؟ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ رائے دہندگان کے دل و دماغ میں شک سے جو خیالات پیدا ہورہے ہیں ان کو ختم کیا جا سکے اور نامزدگی و انتخاب کے عمل کو جو تقدس حاصل ہے وہ بحال ہوجائے۔ لیکن اگر معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے پس پشت کوئی منصوبہ کار فرما ہے یا جعل و فریب کے دام کو پھیلا کر ایسے نتیجے حاصل کیے جا رہے ہیں تو پھر یہ خطرہ کی گھنٹی ہے۔ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس کو اگر بروقت نہ روکا گیا اور الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہ پایا گیا تو اس سے دستوری جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
گزشتہ ایک دہائی میں اس ملک کے مرکز میں برسر اقتدار پارٹی لگاتار اپوزیشن کو ختم کرنے یا انہیں بے حیثیت اور غیر موثر بنانے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہے اس سے یہ شبہہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ سب کسی بڑے منصوبہ کا حصہ تو نہیں ہے؟ اس ملک کے تمام اہم اداروں کو بتدریج جس ڈھنگ سے گزشتہ ایک دہائی میں کمزور بنایا جاتا رہا ہے اس سے اہم اداروں کی غیر جانبداری پر شک کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ اگر معاملہ صرف سورت تک محدود رہتا اور اندور اور قنوج کا اضافہ اس فہرست میں نہیں ہوتا تو شاید اس کی گنجائش تھی کہ یہ کہا جائے کہ اتفاقاً ایسا ہوگیا ہو۔ لیکن اب یہ ٹرینڈ کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔عالمی سطح کے وہ ادارے جو دنیا بھر میں جمہوری نظام کی صحت کے بارے میں اپنی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں انہوں نے پہلے ہی یہ کہہ دیا ہے کہ نریندر مودی کے عہد میں ہندوستان کی جمہوریت بہت کمزور ہوئی ہے۔ اب یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرے کہ ہندوستان میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اب تک الیکشن کمیشن کا کردار اس محاذ پر قابل تحسین نظر نہیں آ رہا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]