امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
ابھی بابری مسجد کا زخم بھرا ہی نہیں تھا، اسکی یادیں باقی ہی تھیں کہ گیا واپی مسجد کا مسئلہ آ کھڑا ہوا اور ایک نیا زخم ابھر گیا، کچھ لوگوں نے تو یہ سوچا تھا کہ بابری مسجد کا معاملہ طاقت کے زور پر حل ہو جانے کے بعد ملک میں پھر ایسا مسئلہ در پیش نہیں آئے گا، دوسری عبادت گاہوں کا کو ٹارگیٹ نہیں کیا جائے گا، کسی مسجد یا مندر کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، دنگے فساد کے عناصر سے عوام کو کوسوں دور رکھا جائے گا اور ملک میں امن و امان قائم کیا جائے گا، بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کی عبادت گاہوں کو محفوظ رکھا جائے گا لیکن سیاست کے آڑ میں ملک کو بیچنے والے اور ہر ہندوستانی شہری کو غلام بنانے والے بازی گروں نے بابری مسجد کے بعد اب گیان واپی مسجد کو نشانہ بنا لیا ہے۔
بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے سترہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا، لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے، کیونکہ بعض مخطوطوں کے مطابق مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی۔
یہ مسجد شہر کے قلب میں دریائے گنگا کے کنارے للتا گھاٹ کے قریب اپنے خوبصورت مینار و گنبد کے ساتھ واقع ہے۔
بہر حال! اب اس مسجد کو “بابری مسجد 2” کا نام دینے کی سازش رچی جارہی ہے، اس مسجد کو بھی بابر کی مسجد کی طرح اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس طرح اکثریت کی عقیدت و محبت کی بنا پر قانون کو پس پشت رکھتے ہوئے بابری مسجد کو زمیں بوس کردیا گیا، باوجود اس کے کہ بحوالہ عدالت بابری مسجد بابر کی ہی مسجد تھی وہاں پر مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر نہیں کی گئی تھی، لیکن پھر بھی اکثریت کی عقیدت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ سنا دیا گیا کہ یہاں پر رام مندر کی تعمیر کی جائے گی اور مسجد کے لئے دوسری جگہ متعین کی جائے گی اور آخر میں جاکر بابری کو زمیں بوس کر دیا گیا اور اسکی جگہ پر رام مندر کا نرماڑ کر دیا گیا۔
ٹھیک اسی طرح اب گیان واپی مسجد کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، اس مسجد پر بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ یہاں پر پہلے مندر تھی جسے مسلم بادشاہوں نے توڑ کر مسجد کی تعمیر کرائی تھی، اسی بنا پر کچھ تیار کردہ عورتوں نے عدالت میں یہ عرضی بھی داخل کی کہ ہمیں اس مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ ایک مندر تھی اور اب بھی مندر ہی ہے اور اسمیں مندر کے نشانات بھی موجود ہیں، اسی کو دیکھتے ہوئے عدالت نے یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ اب اس مسجد کی تحقیق کی جائے گی اور اس مسجد کا سروے کیا جائے گیا اور اسکی ویڈیو گرافی کر کے پتہ لگایا جائے گا کہ یہ مندر تھی یا مسجد۔
خیال یہ کہتا ہے کہ یہ کوئی صحیح واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک سازش ہے، ایک پلاننگ ہے، اسکے پس پشت ایک متحرک سسٹم ہے، کہ جس طرح بابری مسجد کو زمیں بوس کر دیا گیا، اور پوری دنیا تماشہ دیکھتی رہی اور ہندوستانی مسلمان اپنے دلوں پر پتھر باندھے کھڑا رہا، وہاں بابری مسجد پر بلڈوزر چلتی رہی چلتی رہی یہاں تک زمیں بوس ہوگئی اور مسلم قوم یوں ہی کھڑی رہی آخر وہ مسجد مندر کا حلیہ پہن ہی لی۔
ٹھیک اسی طرح اس بار بھی مسلمانوں کی ایک قدیم عبادت گاہ گیان واپی مسجد کو بھی گرانے کی سازش کی جارہی ہے، اور یہ سازش صرف عوام ہی کی نہیں ہے بلکہ اسمیں حکومت اور عدالت دونوں شامل ہیں، کیونکہ جب عدالت میں گیان واپی مسجد کے حوالے سے عرضی داخل کی گئی تھی اسی وقت عدالت کو پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کا حوالہ دے کر پہلی سماعت ہی میں اس عرضی کو خارج کردینا چاہیے تھا، کیونکہ “پلیسز آف ورشپ” ایکٹ 1991 وہ قانون ہے جس میں اس بات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وہ مذہبی مقامات جسے 1947 میں تعمیر کیا گیا تھا اب آگے چل کر اسمیں ترمیم نہیں کیا جائے گا سوائے بابری مسجد کے۔
لیکن عدالت نے اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جس طرح بابری مسجد کو مسمار کر دیا گیا اب اسی طرح گیان واپی مسجد کو بھی نشانہ بنا کر اور اسکا سروے کراکر، اسکے آثار قدیمہ پر خیالی پلاؤ بناکر پھر اسے بھی منہدم کراکر، مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچا کر، اکثریت کے عقیدت و محبت کو سامنے رکھتے ہوئے پھر ایک مندر بنانے کی خفیہ سازش کر رہی ہے۔
جبکہ اس طرح کی حرکت اور کسی عبادت گاہ میں ترمیم و تبدیل یا اس پر کسی قسم کا الزام لگانا اور گیان واپی مسجد کے تعلق سے بنارس کے ماتحت عدالت کا فیصلہ “پلیسز آف ورشپ” ایکٹ 1991 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو پتہ یہ چلے گا کہ اس معاملے میں صرف چند لوگ ہی شامل نہیں ہیں بلکہ مذہب کے نام پر سیاست کی روٹی سیکنے والے بازی گروں کا بھی اس میں دخل ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر چند لوگ گیان واپی مسجد کو مندر ثابت کر رہے ہیں یا اگر اس مسجد کی فوٹوگرافی کرا رہے ہیں اور اسکی آثار قدیمہ پر ہندو مذہب کے آثار کا دعویٰ کر رہے ہیں تو حکومت کا یہ فریضہ تھا کہ وہ ان چند لوگوں پر ایف آئی آر درج کرا کے انہیں سزا سنائے اور مذہبی مقامات ایکٹ 1991 کو قائم و دائم رکھے۔
لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے یہ ایک خفیہ سازش ہے اور ووٹ بینکنگ کی ایک اچھی قسم ہے ساتھ ہی ساتھ اگلے الیکشن کی تیاری بھی ہے، کیونکہ اگلے الیکشن میں انکے یہی مدعے ہونگے اور انکی یہی تقریر ہوگی کہ کبھی انہوں نے طلاق ثلاثہ کا بل پاس کیا تو کبھی رام مندر کا نرماڑ کیا، کبھی حجاب اور اذان سے کھلواڑ کیا تو کبھی گیان کے معاملے کو اچھال دیا۔
بہر کیف! یہ ایک حساس معاملہ ہے، اسی لئے مسلم قوم کو یک جٹ ہوکر، ہر مسلم تنظیم کو ایک ساتھ ہوکر عدالت عظمیٰ سے گیان واپی مسجد کے حوالے سے بات کرنی چاہئے اور پلیسز آف ورشپ ایکٹ ,1991 کو مدنظر رکھتے ہوئے گیان واپی مسجد کی حفاظت کا ذمہ اٹھانا چاہیے۔