یوکرین پر فوجی حملہ کے خدشہ کے دوران روس اور مغربی ممالک کے درمیان چل رہی سرد جنگ کی گرمی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ بیشک روس بار بار یوکرین پر کسی رسمی حملہ کے امکان کو مسترد کررہا ہے، لیکن یوکرین کی سرحد پر اس کی فوج کی بڑھتی تعیناتی کچھ دوسری ہی کہانی کہہ رہی ہے۔ ابھی تک یہ کہا جارہا تھا کہ روس نے یوکرین سے متصل سرحد پر ایک لاکھ فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں، لیکن تازہ ترین اندازہ کے مطابق یہ تعداد تقریباً دوگنی ہوکر ایک لاکھ 90ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں یوکرین کے اندر روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند، روسی نیشنل گارڈ اور کریمیا میں تعینات روسی فوجیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ خطرہ اس لیے بڑھا ہوا سمجھا جارہا ہے کیوں کہ اس فوج کے تقریباً 50فیصد حصہ نے اب حملہ والی پوزیشن لے لی ہے۔ سیٹیلائٹ تصاویر میں بیلاروس، یوکرین کے حصہ والے کریمیا علاقہ اور یوکرین کی مغربی سرحد کے پاس بڑھی ہوئی فوجی ہلچل نظر آئی ہے۔ تصاویر میں ان جگہوں پر ہیلی کاپٹر اور ڈرون آلات کی بڑی تعداد نظر آئی ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن اسے روس کے حملہ کو آخری شکل دینے کی تیاری کا ایک اور واضح اشارہ بتارہے ہیں۔
کیا روس حقیقت میں یوکرین پر حملہ کرے گا؟ سوال جنگی علاقہ سے وابستہ ہے اور اپنے اپنے محاذ کو مضبوط کرنے کے لیے اس پر دوست اور دشمن والی ڈپلومیسی کا کھیل بھی خوب چل رہا ہے۔ اس ہفتہ ہندوستان نہ چاہتے ہوئے بھی اس کھیل کا مرکز بن گیا۔ پرامن اور تعمیری سفارت کاری کو وقت کی ضرورت بتاتے ہوئے ہندوستان نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اسٹیج سے دونوں فریقوں کو کشیدگی میں اضافہ والے کسی بھی قدم سے بچنے کی صلاح دی تھی۔ اب امریکہ اور روس اس کے اپنے اپنے مطلب نکال کر ہندوستان کو اپنے خیمے میں دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ روس نے جہاں آزاد اور متوازن رُخ کے اظہار کے لیے ہندوستان کی ستائش کی ہے، تو امریکہ بھی امید ظاہر کررہا ہے کہ حملہ کی صورت میں ہندوستان اسی کا ساتھ دے گا۔ اس کے لیے امریکہ کواڈ کے وزرائے خارجہ کی ملبورن میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستان کو یاد دلا رہا ہے کہ جس طرح اصول پر مبنی نظام یوروپ یا دنیا میں کہیں اور نافذ ہوتا ہے، ویسے ہی وہ انڈوپیسفک خطہ میں بھی مؤثر ہے اور ہندوستان بھی اس نظام کے لیے پرعزم ہے کہ طاقت کے زور پر سرحدوں کو دوبارہ ترتیب نہیں دیا جاسکتا۔
سفارت کاری کی یہ پراسرار پیچیدگیاں حکمرانوں کے ہی بس کی بات ہے، لیکن جو بڑا سوال ان کے ذہن میں آرہا ہوگا وہ ایک اوسط ہندوستانی کی سیدھی صاف زبان والی اس تشویش سے الگ نہیں ہوگا کہ اگر جنگ ہوئی تو ہندوستان کہاں کھڑا ہوگا؟ کیا ہندوستان پرانے دوست روس کا ساتھ دے گا یا نئے دوست امریکہ کا ساتھ دے گا؟ پیاز کی پرتوں کی طرح اس سوال کا جواب بھی تہہ دار ہے۔ آزادی کے وقت سے لے کر سرد جنگ تک اور پھر اس کے بعد سوویت یونین کے خاتمہ تک ہندوستان اور روس کے درمیان گہری دوستی رہی۔ معاشی تجارت اور ہتھیاروں کی خرید و فروخت نے اس دوستی کو کھاد پانی دینے کا کام کیا۔ لیکن سی ایم آئی آئی یعنی سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب اس خطہ میں کہانی بدل گئی ہے۔ سرد جنگ کے دور میں ہندوستانی برآمدات میں 10فیصد تک کی حصہ داری رکھنے والے روس کو اب ہندوستان صرف ایک فیصد تک کی برآمد کرتا ہے۔ یہی حال درآمد کا ہے جہاں اعداد و شمار 1.4فیصد ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دونوں ممالک کا آپسی کاروبار اب 9.3ارب ڈالر تک سمٹ گیا ہے۔ حالاں کہ دونوں ممالک نے اسے 2025تک 30ارب ڈالر تک بڑھانے اور دوطرفہ سرمایہ کاری کو 50ارب ڈالر تک لے جانے کے اہداف بھی طے کیے ہیں۔ تب بھی یہ امریکہ کے ساتھ ہمارے 146بلین ڈالر اور یوروپی یونین سے 71بلین ڈالر کے آپسی کاروبار کے مقابلہ میں کافی کم رہے گا۔
لیکن اس کا دوسرا اور زیادہ اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کل آپسی کاروبار میں ہتھیاروں کی خرید کے لحاظ سے روس کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔ اس بات کو تو امریکہ بھی مانتا ہے کہ ہتھیاروں کی درستگی کے معاملہ میں بھلے ہی وہ 21ہو، لیکن معتبریت اور فائرپاورکے معاملہ میں روس اس سے آگے ہے۔ روس کے 3M22جرکون جیسے ہائپرسونک ہتھیار اتنی تیز اور کم اڑان بھرتے ہیں کہ اس کے سامنے امریکہ کا روایتی میزائل مخالف دفاعی نظام بھی دم توڑ دیتا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی مارچ، 2021کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2016-2020کی مدت میں ہندوستان روسی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار رہا۔ اس دوران کل روسی دفاعی برآمد کا 23فیصد حصہ ہندوستان آیا۔ اس کے مقابلہ میں امریکہ سے ہماری دفاعی تجارت 20ارب ڈالر کی رہی جو بھلے ہی قیمت کے لحاظ سے روس سے زیادہ ہو، لیکن آپسی کاروبار کے مقابلہ میں یہ چھوٹا حصہ ہے۔ 2019-20میں ہندوستان نے جدید تکنیک والے روسی ہتھیاروں کے نئے آرڈر دیے ہیں جس سے اگلے پانچ برسوں میں روسی ہتھیاروں کی ہندوستان کو برآمد میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ملک کی مشرقی اور شمالی سرحدوں کی پہریداری میں اس نظریہ سے روس کا اہم تعاون رہا ہے۔ جنگ ہونے کی حالت میں نہ صرف ان ہتھیاروں کی برآمد پر تلوار لٹک سکتی ہے، بلکہ ایسی خرید کرنے پر امریکی پابندی کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
جنگ سے منسلک تیسرا پہلو چین سے متعلق بین الاقوامی مسئلہ کا ہے۔ اسی موضوع پر اپنے گزشتہ مضمون میں میں نے بتایا تھا کہ کس طرح روس کو مرکز میں رکھنے پر چین اور امریکہ کو لے کر ہمارے تال میل کا حساب کتاب ہر حالت میں صفر ہی ہے۔ امریکہ کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے تو چین پیچھے ہٹتا ہے۔ اسی طرح جو کچھ امریکہ کو کمزور کرتا ہے، وہ چین کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ روس چاہے گا کہ امریکہ کمزور ہو۔ اس سے چین مضبوط ہوگا اور روس لاکھ کہے کہ اس کا ارادہ ہندوستان کو کمزور کرنا نہیں ہے، لیکن آخرکار نقصان تو ہندوستان کا ہی ہونا ہے۔ موجودہ حالات میں ہندوستان اگر امریکہ اور اپنے یوروپی ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو یہ روس کو ناخوش کرے گا۔ ہندوستان اگر روس کے ساتھ جاتا ہے تو یہ ایک ہی وقت میں چین کو مضبوط اور امریکی اتحاد کو کمزور کرے گا۔ توازن برقرار رکھنے اور دونوں فریقوں کو خوش رکھنے کے چکر میں اسے دونوں طرح سے ناخوشی کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
تو یہ صورت حال کیسے ٹالی جاسکتی ہے؟ اس کا ایک طریقہ تو یہی ہے کہ نہ صرف جنگ ٹل جائے، بلکہ اس سے وابستہ کشیدگی بھی ختم ہوجائے۔ لیکن بین الاقوامی واقعات اپنے محور پر ایسے پوری طرح کبھی نہیں پلٹتے ہیں۔ تو دوسرا راستہ کشیدگی کو آہستہ آہستہ کم کرکے دونوں فریقوں کو جنگ کے میدان کے بجائے بات چیت کی ٹیبل پر لانے کا ہوسکتا ہے۔ فی الحال یوروپی یونین کا چیف ہونے کے ناطے فرانس اس ذمہ داری کو نبھا رہا ہے، لیکن اس کی پہل زیادہ کام کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ کیا روس اور امریکہ کے لیے مساوی اہمیت رکھنے کی ہندوستان کی حالت اور خاص طور پر ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی عالمی شبیہ اس میں بحران سے نجات دلانے کا کام کرسکتی ہے؟
وزیراعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ سے ہمارے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ چین اور روس کے تناظر میں امریکہ کبھی کبھار رشتوں کی اس گرمی کا تذکرہ بھی کرتا رہتا ہے۔ پوتن بھی سال2014کے بعد سے اب تک وزیراعظم مودی سے 19ملاقاتیں کرچکے ہیں جو بین الاقوامی ڈپلومیسی میں دونوں طرف سے ایک دوسرے کی اہمیت کا اعتراف ہے۔ ویسے ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بین الاقوامی ڈپلومیسی میں ایک اور ایک کا جوڑ ہمیشہ دو ہی نہیں ہوتا ہے۔ لیکن ایک اور ایک کا جوڑ سب کو ایک ساتھ جوڑے رکھنے میں کامیاب ہوجائے، تو حرج بھی کیا ہے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
جوڑ ہی ہے بحران کا توڑ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS