اظہارخیال کی آزادی

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

سپریم کورٹ آف انڈیا نے اظہار خیال کی آزادی اور اس دستوری آزادی کے سامنے موجود چیلنج، حکومتوں کے ذریعے اس آزادی یا حق کو دبانے کے لیے قانون کے غلط استعمال پر روشنی ڈالتے ہوئے حالیہ دنوں میں ’’پٹریشیا موکھیم بنام اسٹیٹ آف میگھالیہ‘‘کا تاریخی فیصلہ سنایا، واقعہ کچھ یوں ہے کہ3جولائی2020کو میگھالیہ کے لبن پولیس اسٹیشن میں واقع ایک میدان میں باسکٹ بال کھیل رہے غیر قبائلی بچوں پر وہاں کے قبائلی افراد نے جان لیوا حملہ کیا جس کے بعد4جولائی 2020کو صحافی پٹریشیا موکھیم نے اپنے فیس بک پر پوسٹ ڈالتے ہوئے کچھ سوالات حکومت اور پولیس افسران سے کیے جن میں پوچھا گیا کہ 1979 سے غیرقبائلیوں پر جو کہ یہاں کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں جان لیوا حملے کیے جارہے ہیں تاہم کبھی بھی کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اور اگر کبھی گرفتار کیا گیا تو ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ کیا پولیس اور حکومت اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام نہیں ہیں؟ کیا میگھالیہ میں قانون کا راج پوری طرح ناکام ہورہا ہے؟اور آخر میں لکھا کہ مجرم اور گنہگار کی کوئی کمیونٹی نہیں ہوتی، کیا پولیس اس واقعہ پر قانونی کارروائی کرے گی یا پھر ایک بار پولیس فائلوں میں یہ حادثہ بھی دب جائے گا؟
پٹریشیا موکھیم کے خلاف دو کمیونٹی کے بیچ نفرت پھیلانے اور فرقہ وارانہ تصادم کرانے کی سازش کے الزام میں انڈین پینل کوڈ کی دفعات 153اے اور505کے تحت کریمنل مقدمہ درج کرلیا گیا، جب کہ فیس بک پوسٹ پر میگھالیہ کی حکومت اور پولیس افسران سے حادثہ کی نوعیت، گزشتہ تاریخ بیان کرتے ہوئے قانونی کارروائی کرکے امن و امان قائم کرنے نیز غیر قبائلیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی گہار لگائی گئی تھی۔

ہمارے ملک کے تمام شہریوں کی یہ دستوری ذمہ داری ہے کہ انصاف پر مبنی پرامن سماج بنانے کے لیے دستور و قوانین میں دستیاب حـقـوق و فـرائض کا استعمال کرکـے ذمہ دار شہری ہونے کا فرض ادا کریں اور فرقہ پرست طاقتوں کے ہر ناپاک منصوبے کو قانونی پیش رفت سے ناکام بنانے کی کوشش کریں۔

سپریم کورٹ نے ’’بلال احمد کالو بنام اسٹیٹ آف آندھراپردیش‘‘ کے مقدمے میں مجموعہ تعزیرات ہند کی دفعات 153 اے اور505کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان دفعات کے استعمال کیلئے ضروری ہے کہ لکھے گئے یا بولے گئے الفاظ کے ذریعے کسی بھی دو مذہبی، لسانی، نسلی یا ذات پات پر مبنی طبقات کے بیچ نفرت، فرقہ واریت یا بری خواہش کا اظہار کیا جائے۔ پٹریشیا موکھیم کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے صاف الفاظ میں کہا کہ حکومت یا پولیس کے ذریعے کوئی قانونی کارروائی نہ کیے جانے کے خلاف آواز اٹھانا یا حکومت سے کسی بھی حادثہ کے ہونے پر قانونی کارروائی کی مانگ کرنا دستور کے آرٹیکل19میں دستیاب اظہار رائے کی آزادی اور حق کا صحیح استعمال ہے اور اس دستوری حق کے استعمال کو انڈین پینل کوڈ کی دفعات 153 اے و505کے تحت مقدمہ درج کرنا قانون کا سراسر غلط استعمال ہے نیز اس مقدمہ کو غیرقانونی ٹھہراتے ہوئے رد کرنے کا حکم دیا۔
آزادی سے پہلے اظہار خیال کی کوئی آزادی دستوری یا قانونی طور پر عوام کے پاس موجود نہیں تھی اس لیے انگریز حکومت کے خلاف کوئی مضمون یا اپنے نظریات شائع کرنے پر ہمارے اہم و سرکردہ لیڈران اور ان کے اخبارات و رسائل کو سخت قوانین و پولیس کارروائیوں کے ذریعے انگریز حکومت روکنے کی تمام کوششیں کیا کرتی تھی، لیکن ملک کے آزاد ہونے کے بعد ہمارے دوراندیش رہنماؤں نے ایک مضبوط جمہوری نظام کو قائم کرنے کے لیے دستور میں آرٹیکل کو شامل کیا جس کا واحد مقصد تھا کہ حکومت یا حکومتی اداروں کی کارگزاریوں نیز پالیسیوں پر عوام کو آزادی کے ساتھ اپنے خیالات اور رائے کو پیش کرنے کی آزادی دی جائے تاکہ سماج میں انارکی پھیلنے سے باز رہے، آرٹیکل19(1) (اے) اور(بی) کے مطابق تمام شہریوں کو آزادی خیال اور تقریر کی آزادی حاصل ہے جب کہ آرٹیکل19کی شق(2 ) اور(3 ) کے تحت کچھ شرائط و پابندیاں لگائی گئی ہیں جن کے مطابق اظہار خیال کی آزادی کے لیے دستوری طور پر یہ شرط لگائی گئی کہ اظہار خیال کا استعمال کرتے ہوئے سماج میں نفرت کے بیج نہ بوئے جائیں، کسی بھی سماجی، مذہبی یا علاقائی طبقے کو خوف و ہراس کا شکار نہ بنایا جائے، کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے، ملک کی خودمختاری و سالمیت کے لیے خطرہ نہ پیدا کیا جائے، پبلک آرڈر یعنی امن و امان، دوست ممالک سے تعلقات، توہین عدالت اور ہتک عزت یا فساد بھڑکانے کی غرض سے اس دستوری حق کا استعمال نہ ہو۔
تاہم آج بھی ہمارے ملک میں ایسے سماج دشمن عناصر موجود ہیں جو کہ سماج میں نفرت کا بیج بو رہے ہیں، سیاسی و مذہبی مفادات کے لیے اقلیتوں کو ڈر خوف اور نفرت کا شکار بنارہے ہیں، تاہم قانون کے ہاتھ ان تک پہنچنے میں ناکام محسوس ہوتے ہیں، جب کہ وہیں دوسری جانب حکومتیں اور حکومتی ادارے اظہار خیال کی آزادی کو خاموش کرنے کے لیے قانون کا غلط استعمال کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اظہار خیال کی آزادی یا حق کو سماج یا سماج کے متفرق طبقات کے درمیان امن و بھائی چارے کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنے کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں، جب کہ کسی بھی دستوری جمہوریت کی کامیابی کا دارومدار دستوری بالادستی و قانون کے مساوی نفاذ پر منحصر ہوتا ہے۔ جمہوریت میں جان و مال کے تحفظ کے بعد عوام کا سب سے اہم حق ان کا آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کو پیش کرنے کا حق ہے، بشرطیکہ یہ اظہار خیال سماج میں زہر گھولنے یا فساد پیداکرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
ہندوستان میں آج اقلیتی طبقات کے خلاف کچھ مخصوص سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ایک بڑے طبقے کے ذریعے مسلسل زہر اور نفرت کے برملا اظہار کو بھی اظہار خیال کی آزادی کا حق بتایا جاتا ہے جب کہ سماج اور سماج کے تمام اداروں خصوصاً محکمہ پولیس اور عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے تمام ہی سیاسی، مذہبی اور میڈیا کے بیانات پر قدغن لگانے کی پوری پوری کوشش کرے۔ میڈیا ٹرائل آج فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن اگر میڈیا کی آزادی سماج میں فرقہ پرستی کا زہربونے پر آمادہ ہوجائے تو اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ضروری ہوجاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کورونا وبا کے دوران تبلیغی جماعت کو نشانہ بناکر جب ایک خاص مذہبی طبقے کے خلاف پورے ملک میں نفرت کی سیاسی فصل تیار کی جارہی تھی، اس وقت میڈیا کے اوپر پابندی لگانے والا کوئی ادارہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے پاس موجود نہیں تھا۔
ہمارے ملک میں عوام کی ایک طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کی جابر حکومت سے آزادی حاصل ہوئی، ملک کی آزادی کے بعد شہری حقوق کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے دستور ہند کی تدوین عمل میں آئی اور ایک عوامی جمہوریت کا نظام حکومت نافذ کیا گیا۔ دستور ہند کے آرٹیکل19کے تحت عوام کو اظہار خیال کی آزادی فراہم کی گئی، آج ہمارے ملک میں تمام شہریوں کو اظہار خیال کایہ بنیادی و شہری حق حاصل ہے کہ وہ پرامن طریقے سے اپنی آواز اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی رکھتے ہیں، سماج کے ہر ذمہ دار شخص کی یہ دستوری و جمہوری ذمہ داری ہے کہ سماج میں ہونے والے ہر ظلم کی داستان کا خاموش تماش بین بنے رہنے کے بجائے حکومت اور حکومتی اداروں کی توجہ مبذول کرائے، کسی بھی فرد یا ادارے کے ذریعے کسی بھی فرد واحد یا اس کے مذہبی و سماجی جذبات اور اعتقادات پر کیے جانے والے فرقہ وارانہ حملے کے خلاف دستور و قانون میں دستیاب حقوق کا استعمال کرے، ہمارے ملک کے تمام شہریوں کی یہ دستوری ذمہ داری ہے کہ انصاف پر مبنی پرامن سماج بنانے کے لیے دستور و قوانین میں دستیاب حقوق و فرائض کا استعمال کرکے ذمہ دار شہری ہونے کا فرض ادا کریں اور فرقہ پرست طاقتوں کے ہر ناپاک منصوبے کو قانونی پیش رفت سے ناکام بنانے کی کوشش کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS