قربانیوں سے ملی آزادی

0

آزادی بڑی قربانیوں سے ملی ہے، ملک کی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے بہت سی ماؤں کو لاڈلوں کی قربانیاں دینی پڑی ہیں تو بہنوں کو وطن پر بھائیوں کو نچھاور کرنا پڑا ہے، عورتوں کو آزادی کے حصول پر بیوگی کی زندگی کو ترجیح دینی پڑی ہے۔ برطانوی حکومت نے 20 فروری، 1947 کو یہ اعلان کیا تھا کہ جون 1948 کو وہ ہندوستان کو آزاد کر دے گی، بعد میں یہ تاریخ بدل کر 15 اگست، 1947کر دی گئی۔ اس سلسلے میں بل مئی 1947 کو پیش کیا گیا تھا۔ مطلب یہ کہ ہندوستان کی تقسیم اور آزادی کا عمل ڈھائی مہینے میں مکمل کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے حالات اچھے تھے تو اس کے علاقوں کی تقسیم میں زیادہ وقت لگا تھا، مثلاً، ممبئی کی سندھ سے اور اڑیسہ کی بہار سے علیحدگی میں دو دو سال لگے تھے، تو برطانوی حکومت نے تقسیم اور آزادی میں اتنی عجلت کیوں دکھائی؟ وہ جانتی تھی کہ تقسیم کا فیصلہ ہندوستان کے سبھی لوگ قبول نہیں کریں گے، پھر اس نے حالات سازگار بنائے رکھنے کے لیے کیا تیاری کی تھی؟ پنڈت نہرو کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے برطانوی حکومت نے فیروز پور ہندوستان کو دے دیا تھا مگر اس نے لاہور کیوں ہندوستان کو نہیں دیا؟ اگر دے دیتی توشاید کچھ کم لوگ مارے جاتے۔ اگست 1947 سے مئی 1948کے درمیان بقول ایل-موسلے، ’ایک کروڑ 40 لاکھ ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کو اپنے اپنے گھروں سے بے گھر ہونا پڑا، 6 لاکھ آدمی مارے گئے اور ایک لاکھ لڑکیاں اغوا کی گئیں مگر اسپیئر نے مرنے والوں کی تعداد 10 لاکھ بتائی ہے۔ اسی طرح اغوا ہونے والی لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ 1857 میں آزادی کے لیے شروع ہوئی پہلی باضابطہ جنگ پر، جسے انگریز ’غدر‘ کہتے ہیں، اگر غور کیجیے، اس میں دی جانے والی قربانیوں پر اگر غور کیجیے، اس کے بعد قربانیوں کے سلسلے پر اگر غور کیجیے اور غور 1947 کے حالات پر کیجیے تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ آزادی بڑی قیمتی ہے بلکہ انمول ہے،اس کی قدر بلا تفریق مذہب و ملت ہر ہندوستانی کو کرنی چاہیے اور خوش قسمتی سے کرتا بھی ہے۔
ایک ماں کے سبھی بچوں کی سوچ جیسے ایک سی نہیں ہوتی، نظریوں کا تضاد انہیں نئی سمت دیتاہے، ترقی کی نئی راہیں کھولتا ہے اسی طرح وطن عزیز ہندوستان کثرت میں وحدت والا ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب، ذاتوں، ثقافتوں اور زبانوں کے لوگ رہتے ہیں۔ مانیتائیں مختلف ہیں، نظریے مختلف ہیں اور ترقی کی راہیں مختلف ہیں لیکن ان کی ترقی مجموعی طور پر ہندوستان کی ہی ترقی ہے۔ ہندوستان نے یہ ثابت کیا ہے کہ چمن کی دلکشی جیسے مختلف پھولوں سے ہے اسی طرح اس کا حسن مختلف نظریے والے لوگوں سے ہے۔ مختلف نظریے، مختلف سوچ کے لوگ ترقی کی متعدد دھاراؤں سے ملک کو جوڑ دیتے ہیں اور لوگوں کو حیرت ہوتی ہے۔ تقسیم کے بعد ہندوستان کو آزادی ملی تھی تو اس وقت بھائی چارے کو قائم رکھنا مشکل کام تھا مگر پنڈت نہرو اور ان کے ساتھی لیڈر یہ جانتے تھے کہ بھائی چارہ قائم رکھے بغیر ملک میں مستقل امن نہیں رہے گا اور مستقل امن کے بغیر مسلسلترقی کا حصول ممکن نہیں۔ 1962، 1965 اور پھر 1971کی جنگوںنے ہندوستان کو جھنجھوڑا مگر دنیا کو ایک پیغام بھی دیا کہ وطن کی محبت ہندوستانیوں کو ٹوٹنے نہیں دے گی۔ آدمی کی زندگی میں جیسے اتارچڑھاؤ آتے رہتے ہیں، اسی طرح ملک کی زندگی میں بھی آتے ہیں۔ 1990-91 میں ملک کے حالات بے حد خراب ہوگئے تھے۔ یہ اس ملک کا امتحان تھا مگر نرسمہاراؤ حکومت کے 24 جولائی، 1991 کے بجٹ نے ملک کو نئی سمت دی، ایک نئے باب کی ابتدا کی۔ لبرلائزیشن کی پالیسی کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ 30 برس میں ہندوستان کی اقتصادیات میں 33 گنا اضافہ ہوا۔ 1991 میں ہندوستان کے پاس غیر ملکی زر مبادلہ 5.80 ارب ڈالر تھا، آج 621.464 ارب ڈالر ہے۔ یہ صورت حال خوش آئند لگتی ہے مگر ہندوستان کے قرضوں کا جی ڈی پی کے 86.597 فیصد تک ہو جانا، بے روزگاری کا گراف 6.95 فیصد تک پہنچ جانا اور روزانہ 3.20 ڈالر یا اس سے کم کمانے والوں کی تعداد کا 46.2 فیصد ہونا یہ بتاتا ہے کہ ملک کے ہر فرد تک خوش حالی پہنچانے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی، یہ جدوجہد دنیا کے بدلے ہوئے حالات میں آسان نہیں ہوگی۔ پھر یہ کہ آزادی سے اب تک کے 74 برس کی اپنی کامیابی دیکھنے کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان برسوں میں متحدہ عرب امارات اور سنگاپورجیسے ممالک کہاں سے کہاں چلے گئے۔ بحث کی خاطر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان ملکوں کی آبادی کے مقابلے ہندوستان کی آبادی زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں چین کی ایک مثال سامنے ہے۔ 1990 میں چین اور ہندوستان کی اکنامی میں اتنا فرق نہیں تھا جتنا آج ہے۔ ان باتوں کے مدنظر ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ عام لوگوں کو بھی آگے بڑھنے کی جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ ہر فرد کی ترقی مجموعی طور پر ہمارے وطن عزیز ہندوستان کو مضبوط بنائے، ہم اپنے وطن کا یوم آزادی یوں ہی خوش و خرم اور متحدہ طور پر مناتے رہیں!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS