صبیح احمد
ہندوستان میں ’فری بیز‘ (مفت تحائف) یا ’ریوڑی‘ کی سیاست کے حوالے سے ایک طویل عرصہ سے بحث چل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ لفظ ہندوستانی سیاست میں تنازع کا موضوع بن گیا ہے۔ انتخابات کے دوران سیاسی جماعتیں ووٹروں سے مفت بجلی/پانی، بے روزگاری الاؤنس، خواتین اور کارکنوں کو الاؤنس، مفت لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون وغیرہ کا وعدہ کرکے ایک دوسرے پر سبقت لےE جانے کی کوشش کرتی ہیں اور بلا تفریق سبھی سیاسی جماعتیں اس دور میں شامل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ووٹروں کے لبھانے کیلئے سب نے اپنے لیے ’ریوڑی‘، گارنٹی، ضمانت، ’سہولت‘ کے نام سے الگ الگ اصطلاحیںگڑھ لی ہیں۔ جو لوگ ان اسکیموں کی مخالفت کرتے ہیں، وہ انہیں ’فری بیز‘ اور ’ریوڑی کلچر‘ کہتے ہیں، جبکہ ان کی حمایت کرنے والے انہیں ’فلاحی اسکیمیں‘ قرار دیتے ہیں۔ مخالفین اکثر کہتے ہیں کہ اس سے سرکاری خزانے پر بوجھ پڑے گا، قرض بڑھیں گے اور یہ صرف سیاسی فائدے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ وہیں اس طرح کی اسکیمیں لانے والے کہتے ہیں کہ اس کا مقصد غریب عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس اسکیم کو ایک پارٹی ایک ریاست میں ’ریوڑی کلچر‘ کا نام دیتی ہے، دوسری ریاست میں وہی پارٹی اسے کچھ اور نام دے کر ’فلاحی اسکیم‘ کے طور پر نافذ کر رہی ہوتی ہے۔
دنیا بھر کی سیاسی جماعتیں ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے مفت اسکیموں یا ’مفت تحائف‘ کا اعلان کرتی رہتی ہیں۔ ہندوستان میں اس کی ابتدا تمل ناڈو سے ہوئی۔ تمل ناڈو میں 2006 میں اسمبلی انتخابات کے دوران ڈی ایم کے نے حکومت بننے پر تمام خاندانوں کو مفت رنگین ٹی وی فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ پارٹی نے جواز پیش کیا کہ اگر ہر گھر میں ٹی وی ہو گا تو خواتین خواندہ ہو جائیں گی۔ ڈی ایم کے کے اس انتخابی وعدے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ بالآخر ڈی ایم کے کی جیت ہوئی۔ وعدہ پورا کرنے کے لیے 750 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا۔ سپریم کورٹ میں ابھی یہ کیس چل ہی رہا تھا کہ 2011 کے اسمبلی انتخابات آگئے۔ اپوزیشن پارٹی ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ نے بھی ٹی وی کے جواب میں مکسر گرائنڈر، الیکٹرک پنکھے، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، سونے کی تھالی وغیرہ تقسیم کرنے کا وعدہ کر دیا۔ شادی پر خواتین کو 50 ہزار روپے اور راشن کارڈ ہولڈروں کو 20 کلو چاول دینے کا بھی وعدہ کیا گیا۔ نتیجتاً ’اے آئی اے ڈی ایم کے ‘ کی حکومت بن گئی۔ سپریم کورٹ نے 2006 کے انتخابی وعدے پر جولائی 2013 میں فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ’فری بیز‘تمام لوگوں کو متاثر کرتی ہیں، جس سے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی جڑیں کافی حد تک ہل جاتی ہیں۔‘ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ضابطہ اخلاق تیار کرنے کا بھی حکم دیا۔ اس کے بعد 2015 میں الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے ضابطہ اخلاق بھی جاری کیا لیکن اس کے باوجود انتخابات میں مفت اعلانات کا سلسلہ جاری ہے۔
آخر ’فری بیز‘ یا ’ریوڑی کلچر‘ سے مراد ہے کیا؟ اس کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ لیکن سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے حلف نامہ میں کہا تھا کہ اگر قدرتی آفات یا وبا کے دوران ادویات، کھانا یا پیسے مفت تقسیم کیے جائیں تو یہ مفت تحائف نہیں ہیں، لیکن اگر عام دنوں میں ایسا ہوتا ہے تو اسے ’فری بیز‘ سمجھا جا سکتا ہے۔ وہیں ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے کہا تھا کہ ایسی اسکیمیں جن سے کریڈٹ کلچر کمزور ہو، سبسڈی کی وجہ سے قیمتوں میں بگاڑ آئے، نجی سرمایہ کاری میں گراوٹ آئے اور لیبر فورس کی شرکت کم ہو جائے تو وہ ’فری بیز‘ہوتی ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ عوام کو لبھانے کے دباؤ میں کیے گئے وعدے یا اخراجات ملک کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں، مگر ہندوستانی آبادی کے درمیان آمدنی میں عدم مساوات کے پیش نظر معیشت کو صحیح سمت میں لے جانے کے لیے ان میں سے کچھ مفت تحائف کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ جسے آج ’فری بیز‘ کہا جا رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ کل وہ قومی سطح کی اسکیم بن جائے۔ تاریخ میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ تمل ناڈو کے تیسرے وزیر اعلیٰ کے- کامراج نے 1960 کی دہائی میں اسکول آنے والے بچوں کے لیے مفت کھانے کی اسکیم شروع کی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تمل ناڈو میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا۔ بعد میں مرکزی حکومت نے ’مڈ ڈے میل‘ کے نام سے ایک اسکیم شروع کر دی۔ اسی طرح جب این ٹی راما راؤ آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے مفت راشن کی ایک اسکیم شروع کی۔ اس کے تحت لوگوں کو 2 کلو چاول مفت دیا جاتا تھا۔ اسی طرز پر مرکزی سطح پر نیشنل فوڈ سیکورٹی پروگرام شروع کیا گیا۔ یہی نہیں، فروری 2018 میں تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے-چندر شیکھر راؤ نے کسانوں کے لیے ’رائتھو بندھو‘ کے نام سے ایک اسکیم شروع کی۔ اس کے تحت اہل کسانوں کو سالانہ 10,000 روپے کی امداد دی جاتی ہے۔ بعد میں 2019 میں مرکزی حکومت نے ’پی ایم سمان ندھی‘ کے نام سے ایک اسکیم شروع کردی۔ حالانکہ ہر ’مفت تحفہ‘ اچھا ہو، یہ ضروری نہیں ہے۔
’ریوڑی‘ سیاست کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ جب سیاسی پارٹیوں کے انتخاب کی بات آتی ہے تو یہ سب اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ کس جماعت نے ’مفت تحائف‘ کی شکل میں کتنی پیش کش کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتیں لوگوں کو اپنے حق میں ووٹ دینے کے لیے ایک طرح سے رشوت دے رہی ہیں۔ اس کا معاشی پہلو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ووٹروں کو سرکاری خرچ پر مفت تحائف دے رہی ہیں، لیکن کیا اس ریاست کی معاشی حالت کے لحاظ سے یہ مناسب ہے؟ سری لنکا کا حالیہ واقعہ اس کی ایک مثال ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سری لنکا کے معاشی زوال کی وجہ وہاں کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے دیے جانے والے ’مفت تحائف‘ رہے ہیں۔ بہرحال انتخابات کے دوران قائدین کی جانب سے مفت سہولیات کے وعدوں کو صرف سیاسی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اس کے معاشی پہلو پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ اگر ریاست کے پاس یہ وعدے کرنے کے لیے ناکافی فنڈس اور محدود وسائل ہیں تو ایسے وعدوں سے گریز کرنا چاہیے۔ مفت تحائف پر ہونے والی بحث کو ریاستوں کی آمدنی کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں مفت سہولیات کا اعلان کرنے کے بجائے مؤثر معاشی پالیسیاں بنائیں تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ اس مسئلے کو بدعنوانی سے پاک نظام تیار کر کے حل کیا جا سکتا ہے تاکہ مستحقین تک سرکاری سہولیات کی رسائی کو یقینی بنایا جاسکے۔ حکمراں جماعتیں نئے معاشی اقدامات کرکے اپوزیشن جماعتوں کے لیے مثال قائم کر سکتی ہیں۔
اگر سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کے کام کریں گی تو انہیں مفت سہولیات کا اعلان نہیں کرنا پڑے گا۔ ووٹروں میں بیداری کی بھی ضرورت ہے۔ لبھانے والے وعدوں پر ووٹ دینے سے پہلے لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ مفت میں اپنا ووٹ بیچ کر کیا غلطی کر رہے ہیں۔ مفت تحائف کے چکر میں لوگ اچھے لیڈروں کو نظرانداز کر دیتے ہیں جس کا خمیازہ بعد میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ مفت اسکیموں کے بجائے روزگار پیدا کیا جائے۔ سرکاری پیسہ ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور زراعت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور مفت سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ ملک کی ترقی اور سماجی ترقی کا باعث بنے گا۔ انتخابات کے وقت درست فیصلے لے کر عوام سیاسی جماعتوں کی اس طرح کی ’مفت تحائف‘ کی کوششوں کو مؤثر طریقے سے ختم کر سکتے ہیں۔
[email protected]