ہندوستان میں ’ مفت اسکیم‘ کامعاملہ اقتدار کی پرپیچ راہداریوں سے نکل کر سیاسی گلیاریوںکے راستہ اب عدالت عظمیٰ تک پہنچ گیا ہے۔سیاسی جماعتوں کے انتخابی وعدے میں مفت اسکیموں کے اعلان پر عدالت کوبھی تحفظات ہیں اور عدالت نے مرکزی حکومت کو اس معاملہ کا حل تلاش کرنے کی ہدایت دی ہے۔عدالت نے یہ ہدایت بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈر ایڈووکیٹ اشونی اپادھیائے کی جانب سے دائر مفادعامہ کی ایک عرضی پر سماعت کے دوران دی ہے۔ عرضی گزار کا مطالبہ ہے کہ انتخابات کے دوران مفت اسکیموں کا غیر معقول وعدہ کرنے والی سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات کو ضبط کر لیا جائے یا ان کا رجسٹریشن منسوخ کر دیا جائے۔ اس معاملے میں چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمن کی قیادت والی بنچ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کو انتخابات کے دوران ’مفت ریوڑی‘ تقسیم کرنے کا وعدہ کرنے سے روکنے کا کوئی حل تلاش کرے۔ عدالت اس معاملے کی مزید سماعت 3 اگست کو کرے گی۔ اب حکومت سیاسی جماعتوں کو پابند کرنے کاکیا طریقہ نکالتی ہے اور عدالت سے کیا فیصلہ صادرہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات حتمی ہے کہ فی زمانہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی وعدوں میں مفت اسکیموں کا اعلان ’ووٹ کشا‘ ثابت ہورہا ہے اور ان ہی حربوں سے انتخابات جیتے جارہے ہیں۔
پہلے اس طرح کے وعدوں پر صرف ایک ہی سیاسی جماعت کا اجارہ تھا پھر دھیرے دھیرے کم وبیش سبھی سیاسی جماعتوں نے اسے اپنا لیا اورحسب توفیق ان وعدوں سے ووٹ کا فیضان حاصل کررہی ہیں۔دوسری سیاسی جماعتوں کی یہ کامیابی ’ خطرہ کی گھنٹی ‘ بن چکی ہے اور گربہ کشتن روز اول کے مصداق بی جے پی حکومت نے بلی مارنے کی تیاری شروع کردی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسی ماہ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے آزادانہ وعدوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔وزیراعظم نے ان اعلانات کو ’ریوڑی کلچر‘ قرار دیااور عوام سے اپیل کی کہ وہ ایسی سیاسی جماعتوں سے ہوشیار رہیں جو انتخابات کے دوران مفت اسکیموں کا وعدہ کرتی ہیں۔ انہوں نے ’ریوڑی کلچر‘ کو ملک کیلئے مہلک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ریوڑی کلچر‘ والے لوگ ترقیاتی کام نہیں کریں گے۔ ایکسپریس وے، ہوائی اڈے یا دفاعی راہداری نہیں بنائی جائے گی بلکہ مفت ریوڑی تقسیم کرکے یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ انہوں نے عام لوگوں کو خرید لیا ہے۔
اب اسے ستم ظریفی کہاجائے یا کچھ اور کہ حالیہ تمام انتخابات میں تشہیری مہم کے دوران مودی حکومت نے اپنی پوری توجہ مفت کی ان ریوڑیوں کی تقسیم پر مرکوز کر رکھی تھی جسے ’غریبوں کی فلاح و بہبود‘ کا نام دیاگیا اورہر فلاحی اسکیم کو اس طرح فروخت کیا گیا کہ وہ یا تو تاریخی یا دنیا کی ’سب سے بڑی ‘ اسکیم بن گئی۔ان ہی مہمات کے دوران یکے بعد دیگرے زیر زمین اور بالائے زمین بھی کبھی نہ رو بہ عمل ہونے والی تمام فلاحی اسکیموں کا بھی شمار کرایاگیا۔ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور 2019 میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے بھی وزیراعظم نریندر مودی نے اسی طرح کے اعلانات کیے تھے۔کبھی ایل پی جی میں سبسڈی تو کبھی کسانوں کیلئے نقد ادائیگی کی اسکیم کا اعلان کیاگیا۔ کورونا وبائی امراض کے دوران مفت راشن کی اسکیم کو نافذ کیا اور کووڈ-19 کی ویکسی نیشن کو دنیا کی سب سے بڑی مفت ویکسی نیشن مہم قرار دیاگیا۔حالیہ اترپردیش اسمبلی انتخاب میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی کا میابی ان ہی مفت اسکیموں کی رہین منت رہی ہے۔ مفت راشن، سستا گھر اور پتہ نہیں کیاکیا اعلانات کیے گئے تھے۔اب جب کہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی مفت اسکیموں کے اعلانات کا مقابلہ کرنے لگی ہیں تو یہ ’ریوڑی کلچر‘ اور ملک کیلئے ’مہلک‘ ہوگیا ہے۔ وزیراعظم کی اس تقریر کے بعدوزارت خزانہ بھی سرگرم ہوگئی ہے اور اسے مفت کی اسکیموں سے اختلاج شروع ہوگیا ہے۔ استدلال یہ دیاجارہاہے کہ اس کی وجہ سے ریاستوں کی معیشت گر رہی ہے، خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں غیر بی جے پی کی حکومت ہے۔
آج وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتاپارٹی جن اعلانات کو ’مفت کی ریوڑی‘ کہہ کر طرح طرح کی گل افشانی کر رہی ہے اور اس پر بندش کیلئے خم ٹھونک کر میدان میں اتری ہے۔یہ اس کا آزمودہ انتخابی حربہ رہاہے مگر جب یہ حربہ دوسری سیاسی جماعتوں نے اختیار کرنا شروع کردیا تو یہ ’ریوڑی کلچر‘ اور ’مہلک ‘ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ان سب کا تعلق شہریوں کی بنیادی ضروریات سے ہے، جسے پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔سیاسی اصطلاح میں ’پاپولزم‘ کہے جانے والے ان اعلانات کے بغیر ہندوستان میں انتخابی جمہوریت بھی بے معنی اور بے مایہ و غریب شہریوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت سے انکار ہے۔
[email protected]
’مفت کی ریوڑی‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS