شاہنوازاحمد صدیقی
فرانس کاشمار مہذب، خوش حال اور طاقتور ملکوں میںہوتاہے جو دنیا میں جمہوری اقدار، عورتوں اورمردوں کے آزادانہ اختلاط، مساویانہ حقوق کاحامی ہے۔ دنیا میں جمہوری نظام لاگوہو اور امیر وغریب، کالے گورے کاامتیاز ختم ہو، یہ فرانس کی کوشش ہوتی ہے مگر پچھلے دنوں اٹلی کی خاتون سیاسی لیڈر جارجیو میلونی نے فرانس اور وہاں کے حکمرانوں کے ان خوشنما نعروں اور اصولوں کے پیچھے کی حقیقت کو طشت ازبام کردیا۔
دراصل اٹلی جو کہ یوروپ کا ہی اہم ملک ہے۔ اس کا شمار براعظم کی اہم ترین معیشتوں میں ہوتا ہے۔ اب وہاں دائیں بازو کی پارٹیاں برسراقتدار آئی ہیں اور فاشسٹ نظریات سے متاثرپارٹی برادرس آف اٹلی Brothers of Itlayکی سربراہ جارجیو میلونی کی قیادت والے محاذکے برسراقتدار آگئی ہے۔ فرانس کی قیادت اور حکمراں جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ایمنوئل میکروں اٹلی میں انتہاپسندانہ نظریات کی حامل طاقتوں کے سربراہ اقتدار آنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فرانس کے سیاست داں ان کو فاشسٹ سمجھتے ہیں اور انھوں نے اس صورت حال پرتشویش کااظہار کیاہے۔ فرانس، برطانیہ اور امریکہ کے ماہرین کا اندیشہ ہے کہ یوروپ کے کئی ملکوں میں اس طرح کے شدت پسند اور دائیں بازو کے عناصر کا برسراقتدار آنا اہل یوروپ کی دیرینہ روایات کے بکھرنے کا اشارہ ہے۔
فرانس نے افریقہ کے کئی ممالک پرقبضہ کرکے ان پر اپناسامراج قائم کر لیا تھا اور جب ان ممالک میں عوامی تحریکیں پیداہوئیں تو مجبوراً اقتدار مقامی لوگوں کے حوالے کردیا مگر مختلف اورباہم متصادم قبائل اور مذہبی اور لسانی طبقات میں پھوٹ ڈال کر یہاں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو برقرار رکھا۔ ان میں بہت سے عرب اور مسلم ممالک بھی ہیں اور وہ ممالک ہیں جن میں مختلف فرقے اور قبائل ہیں اور ان میں آپس میں رسہ کشی بھی ہے۔ ان ممالک میں اختلاف رائے اور بالادستی کشمکش کسی بھی متنوع سماج یاجمہوری اختلاف رائے کا مظہر ہوتی ہیں۔ مگر سابق سامراجی طاقتیں اگران جمہوری سیاسی اختلافات رائے کو ہوا دے کر اپناالّوسیدھا کرتی ہیں تواس پر تنقید ہونافطری ہے۔ فرانس کا یہی وطیرہ افریقہ کے کئی ممالک میں رہا ہے۔(ملاحظہ کریں: ’افریقی ساحلی ملکوںمیں ناراضگی‘) اس سے قبل مالے کے فوجی حکمرانوں نے فرانس کی فوجی مداخلت پرناگواری کااظہارکیا اور اپنے ملک کے عزت و وقار کے دفاع کے لیے سخت موقف اختیار کیا اور کئی مقامات سے فرانسیسی فوجی اڈے خالی کرالیے اور اب حال ہی میں برنیکافاسو میں فوج کے ایک ٹولے نے صدر کو معزول کرکے اقتدار پرقبضہ کررکھاہے،خیال رہے کہ حال ہی میں معزول کیے گئے صدر بھی فوجی تھے۔ گزشتہ ایک سال کے اندر برنیکا فاسو میں دوسری بغاوت ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سابقہ بغاوت کو فرانس کی تائید حاصل تھی مگر اس بغاوت کی فرانس اوراس کے حواری نکتہ چینی کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ برنیکافاسومیں اس سے پہلے فوجی حکمراں کے دور میں جمہوریت کی بحالی کی کوئی بات نہیں کہی جارہی تھی، مگر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل وغیرہ نے اس مرتبہ کے تختہ پلٹ کی مذمت کی ہے۔
برنیکافاسوفرانس کی کالونی رہاہے۔1960میں فرانس نے وہاں سے اپنا تسلط ختم کیا تھا۔ 1960میں برنیکا فاسو کا نام اپروولٹا(Uppar Volta)تھا مگر بعد میں 1984میں بدل کر برنیکافاسوکردیاگیا۔ برنیکافاسومیں عظیم شخصیات حکمراں گزری ہیں۔ ان میں ایک قابل رشک نام ’ٹومس سنکار‘کابھی ہے جو سماجی مساوات کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ طبقہ کے ایک گروہ کو اعلیٰ درجہ کی شراب پلانے کا انتظام کرنے کی بجائے عوام کو پانی کی سپلائی بہتر بنانے کا انتظام کرنا مناسب ہوگا۔ آزادی کے بعد سے اب تک برنیکافاسومیں12سے زائد بغاوتیں یا بغاوتوں کے ذریعہ تختہ پلٹنے کی کوششیں ہوچکی ہیں۔
60فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والے اس ملک میں بدامنی غیرملکی مداخلت اور قبائلی رسہ کشی کے حالات کا فائدہ اٹھانے والی تنظیموں میں القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس بھی شامل ہیں۔ ملک کی مختلف فرقوں اور لسانی طبقات میں اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرانس اپنا تسلط برقرار رکھنے میں کافی حد تک کامیاب رہاتھا۔ افریقہ کے اس عظیم ملک اور خوددار عوام نے اس مرتبہ فرانس کی اسی مداخلت پرشدید ناراضگی ظاہر کی ہے۔(ملاحظہ کریں باکس غیورعوام کی نفرت)
تقریباً30زبانوں والے برنیکافاسومیں تعلیم وصحت کا ڈھانچہ بہت کمزور ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مسلمانوں کی مجموعی آبادی تقریباً 60فیصد ہے۔ دوسری نمبر کی اکثریت عیسائی ہیں۔دیگر بہت سی لسانی قبائلی اور علاقائی اقلیتیں بھی ہیں۔برنیکافاسومیں غذائی بحران شدید ہے اور گلوبل ہنگر انڈیکس میں78ملک میں ان میں برنیکافاسوکا نمبر65واں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق معدنی وسائل سے مالا مال اس زرخیز ملک میں 1.5ملین بچے فاقہ کشی کے دہانے پرہیں۔n