امن کی خاطر

0

مسئلوں کے حل کے لیے جنگیں کی جاتی رہی ہیں مگر اردو کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار ساحرؔ لدھیانوی کا کہنا ہے اور بجا کہنا ہے کہ ’جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے؍جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی‘۔ جنگ کتنا بڑا مسئلہ ہے، گزشتہ دو دہائی میں دنیا نے عراق جنگ کی مثال سے بھی سمجھا اور افغان جنگ کی مثال سے بھی۔ دنیا کے کسی خطے میں حالات کے خراب ہونے پر اسی لیے مسئلے کے حل کے لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں ہتھیار سپلائی کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ شام میں حالات خراب ہوئے، مسئلے اور پیچیدہ ہوئے، کیونکہ وہاں دنیا کی بڑی طاقتوں نے پراکسی وار کرنے کے لیے فریقین کو ہتھیار سپلائی کیے جبکہ کریمیا یوکرین کے حالات خراب کرنے کی وجہ نہیں بن سکا، کیونکہ وہاں امن بحال رکھنے کی خاطر ہتھیاروں کی سپلائی میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی گئی۔ شام اور یوکرین کے سلسلے میں طاقتور ملکوں کی پالیسی سمجھنے سے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ جاتی کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک طرف ایران کے ایٹمی پروگرام پر ہوا امن معاہدہ کیوں ختم کر دیا اور دوسری طرف شمالی کوریا کے سربراہ سے گفتگو کے لیے دوسرے ملک کیوں گئے۔ دنیا جانتی ہے کہ ایران میں جمہوری نظام ہے مگر شمالی کوریا میں یہ نظام نہیں ہے۔ حسن روحانی اور کم جونگ-اُن کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ حسن روحانی اپنے پیش رو احمدی نژاد سے زیادہ سلجھے ہوئے، زیادہ اعتدال پسند لیڈر سمجھے جاتے تھے مگر کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان کی اعتدال پسندی کی قدر کی؟ ایران کے ایٹمی پروگرام پر امن معاہدے کو مسترد کردینے کی اصل وجہ کیا رہی، یہ بات امریکہ کو عالمی برادری کو بتانی چاہیے تاکہ وہ حقیقت سمجھ سکے اور امریکہ کی اصل امن پسندی اس کی فہم سے بالاتر نہ رہے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام پر امن معاہدہ آسانی سے نہیں ہوا تھا۔ اس کے لیے برسوں محنت کی گئی تھی، امریکی صدر براک اوباما نے یہ دلچسپی دکھائی تھی کہ وہ ایٹمی پروگرام پر تنازع مذاکرات کی میز پر سلجھانا چاہتے ہیں، میدان جنگ میں نہیں تب امریکہ ، چین، فرانس، روس، برطانیہ، جرمنی اور یوروپی یونین کے ساتھ ایران کے ایٹمی معاہدے پر دستخط ہوسکے تھے مگر اس کے انجام کے بعد امریکہ یا اس کے اتحادی ملکوں پر یہ اعتماد کیسے کر لیا جائے کہ ایٹمی پروگرام پر تنازع کا حل وہ واقعی مذاکرات کی میز پر ہی نکالنا چاہتے ہیں۔ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے، ’میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہماری حکومت ضرور بات کرے گی لیکن اس دباؤ کے ساتھ نہیں جو وہ (مغربی ممالک) ایران کے خلاف ڈال رہے ہیں۔‘اور یہ بات صحیح ہے کہ مذاکرات میںدباؤ نہیں، تشویش کا اظہار ہونا چاہیے اور دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کی تشویش دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے مگر امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کی پالیسی کیا ہے،یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ ایک طرف تو چین کی توسیع پسندی کاذکر کرتے ہیں جو صحیح بھی ہے، وہ چین کے بڑھتے ہوئے دائرۂ اثر کو محدود کرنا چاہتے ہیں، یہ واقعی وقت کی مانگ ہے اور دوسری طرف ان کی پالیسی ملکوں کو چین سے مدد لینے پرمجبور کر دینے والی ہے۔ ایٹمی پروگرام پر ہوئے امن معاہدے کو اگر امریکہ مسترد نہیں کرتا تو کیا چین سے تجارتی رشتے بڑھانے پر ایران مجبور ہوتا؟ امریکہ کی ایران پالیسی نے اس کے دوستوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے، یہ بات امریکی حکومت جتنی جلدی سمجھ لے گی اتنا ہی اچھا ہوگا، ورنہ ایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ الجھتا جائے گا اور یہ کبھی کسی بڑی جنگ کی وجہ بن جائے تو اس پر شاید ہی کسی کو حیرت ہوگی، کیونکہ مسئلے مذاکرات سے نہیں سلجھائے جاتے تو انہیں سلجھانے کے لیے حالات خود میدان جنگ میں جانے پر مجبور کر دیتے ہیں مگر یہاں پھر ایک سوال ہے کہ کیا دنیا جنگ کی متحمل ہے؟ظاہر ہے، اس کا جواب نفی میں ہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی پوری دنیا کے لیے ایک اہم ایشو بن چکی ہے اور عالمی برادری یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ جنگیں نیچر پر مزید اثرانداز ہوں اور ایک ملک یا چند ملکوں کو سبق سکھانے کے لیے پوری دنیا کو خطرے میں ڈال دیا جائے۔ ویسے افغان جنگ کا سبق بھی یہی ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ ہی نہیں، دنیا کے جتنے بھی بڑے مسئلے ہیں، ان کا حل مذاکرات کی میز پر تلاش کیا جائے، کیونکہ ’جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے‘پھر ’جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی‘ یہ سمجھنا وقت کا تقاضا بھی ہے اور حالات کی مجبوری بھی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS