مطیع الرحمٰن عوف ندوی
انسانی ضروریات میں غذا اور خوراک کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ انسان اپنی بہت سی ضروریات سے صرف نظر کرسکتا ہے لیکن غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جو عموماً فقر وفاقہ کا شکار رہتے ہیں۔ وہاں کے عوام دانہ دانہ کو ترستے ہیں اور عالمی ادارے برائے صحت وتغذیہ محض ان کے اعداد وشمار پر اکتفا کرتے نظر آتے ہیں، بالخصوص جنگ زدہ علاقے جلا وطنی اور انسانی زندگی کی ابتری سے دو چار نظر آتے ہیں۔ نہ ان کی رہائش کا انتظام ہوتا ہے اور نہ ہی صحت اور غذا کا۔ دنیا کے نقشہ میں صومالیہ کا ایک ایسا وجود رہا ہے جو سب سے زیادہ بھکمری، غربت اور قلت تغذیہ وخوراک کا شکار نظر آتا ہے۔ ملک شام میں مسلسل خانہ جنگی اور تیغ وتفنگ کے ماحول نے بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ ادھر افغانستان بیس سالہ جنگی حالات سے نجات پانے کے بعد دنیا میں ایک ایسے ملک کے طو رپر منظر عام پر آیا جس کے بارے میں صحت اور تغذیہ وخوراک کے اداروں نے مستقبل میں ایسے اندیشوں کی پیش گوئی کی کہ اس کے نتیجے میں جہاں لاکھوں افراد کے جلا وطن ہونے کا خطرہ تھا وہیں فقر و فاقہ کی وجہ سے ہزاروں اموات واقع ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا۔ برصغیر ہند و پاک میں بھی اجناس کی قلت کی وجہ سے مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، خاص طور سے غلہ اور خوراک سے متعلق اشیا تیس سے چالیس فیصد تک مہنگی ہوگئی ہیں۔ روس یوکرین جنگ نے اس پر دو آتشتہ کا کام کیا ہے اور گیہوں کی برآمد پر قد غن لگنے کی وجہ سے جہاں افراط زر میں اضافہ ہوا ہے وہیں اجناس کی قلت نے ہوش ربا گرانی سے دو چار کر دیا ہے، صر ف بر صغیر کا مسئلہ ہی نہیں ہے، یوروپ اور امریکہ میں بھی صورتحال تبدیل ہوئی ہے اور اشیاء ضروریہ کے نرخ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
بچوں کی فلاح وبہبود سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق یوکرین میں جاری جنگ، بعض ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں اور کورونا کی وبا کی وجہ سے اس برس خوراک کی قیمتوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یونیسیف نے 23 جون 2022 کو اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ شدید قلت تغذیہ کی وجہ سے پانچ برس سے کم عمر کے تقریباً 80 لاکھ بچے موت کے خطرے سے دو چار ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے بیشتر بچے 15 ممالک میں ہیں، جو خوراک اور طبی امداد کی شدید قلت کا شکار ہیں، اس بحران سے دوچار ممالک میں افغانستان، ایتھوپیا، ہیٹی اور یمن سرفہرست ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قلت تغذیہ کی وجہ سے رواں برس کے آغاز سے اب تک مزید دو لاکھ ساٹھ ہزار بچے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے مطابق یوکرین میں جاری جنگ اور دنیا کے کچھ حصوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مسلسل خشک سالی کے سبب خوراک کی قیمتوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی صورتحال تاریخ کے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’غربت کی سطح حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے، اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے خبر دار کیا تھا کہ ملک انسانی تباہی کے دہانے پر ہے، 3کروڑ 80 لاکھ کی آبادی میں سے 22 فیصد پہلے ہی قحط کے قریب ہے اور دیگر 36 فیصد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ نے وارننگ دی ہے کہ افغانستان کی معیشت چالیس فیصد تک سکڑ گئی ہے اور ملک کی گرتی ہوئی معیشت شدت پسندی کے خطرے کو بھی بڑھا سکتی ہے۔ افغانستان کی اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے امکان ہے کہ چار ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ کسی ملک کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی انسانی اپیل ہوگی۔
عالمی سطح پر ہر پانچ میں سے ایک انسان کی موت غذا کی کمی کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح غذا میں غذائیت کم ہونا بھی انسانی صحت پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتا ہے۔ آزادانہ طور پر مرتب ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقہ غذائیت کی کمی کے حامل خطوں میں سب سے آگے ہے۔ یہ رپورٹ29 نومبر کو تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں عالمی فوڈ کانفرنس میں پیش کی گئی۔ اس میں کہا گیا کہ غذا میں غذائیت کی کمی کی وجہ سے عالمی برادری کو ساڑھے تین ٹریلین ڈالر سالانہ کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ موٹاپے اور زیادہ وزن کی وجہ سے یہ بوجھ پانچ سو ارب کے برابر ہے، نیز بچوں کی اموات میں قریب 45 فیصد کی ذمہ داری خوراک میں غذائیت کی کمی سے جڑی ہے جب کہ پانچ برس سے کم عمر کے قریب ایک کروڑ 60 لاکھ بچے غذا کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موٹاپا زیادہ وزن تمام اموات میں قریب سات فیصد کا ذمہ دا رہے۔
بی بی ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا فرد غذائی کمی کا شکار ہے اور یہ مسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں۔ اس سے نہ صر ف غذائی کمی کے شکار افراد کی زندگی خطرے میں پڑتی ہے بلکہ وسیع تر دیر پا معاشی ترقی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غذائی کمی کو پورا کیے بغیر افراد اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال نہیں کرسکتے۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وسائل کی دن بہ دن کثرت کے باوجود آخر غذا اور خوراک کی کمی کیوں واقع ہو رہی ہے۔ اگر سنجیدگی سے اس پہلو پر غور کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس کی ایک بڑی وجہ انسانی زندگی میں عدم مساوات اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا بہت بڑا دخل ہے۔ اللہ تعالیٰ جو اس پورے نظام کو چلاتا ہے، وہی رزاق ہے اور اس نے رزق کے وسائل کے دہانے کھول رکھے ہیں، نیز اس نے یہ وعدہ بھی کر رکھا ہے کہ ہر کس وناکس کے رزق کی ذمہ داری اسی کی ہے۔ یہاں تک کہ کیڑوں مکوڑوں اور بے زبان جانوروں کو رزق پہنچانے والی ذات وہی ہے تو آخر عالمی ادارے قلت خوراک کی وجہ سے اس قدر تشویش میں کیوں مبتلا ہیں۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام نے عدم توازن قائم کر رکھا ہے اور ذخیرہ اندوزی اس پر تیستہ کا کام کر رہی ہے۔ دنیا میں عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والے اپنی تقریبوں میں کس قدر اللہ کی نعمت کو برباد کرتے ہیں، کس طرح اس کی نا قدری ہوتی ہے اور وہ غریبوں کے منہ کا نوالہ چھین کر کس طرح داد عیش دیتے ہیں اور غریب اس کے نتیجہ میں عسرت اور مفلوک الحال کی زندگی بسر کرتا ہے، دنیا میں ماحولیات کی تبدیلی جس نے اجناس کی پیداوار کو متاثر کیا ہے، یہ دین بھی ترقی یافتہ ممالک کی ہے۔ اسلحوں کی ہوڑ اور ملکوں کو جنگ کی طرف ڈھکیلنے کی سیاست نے کیا زندگی کے نظام کو متاثر نہیں کیا ہے، کیا اسلحوں کی تجارت کے لیے ملکوں کو جنگ میں ڈھکیلنے کی سازش نہیں کی جاتی ہے، اپنی معیشت اور اکنامی کو فروغ دینے کے لیے کیا عالمی نظام ماحولیات کو سبوتاژ کرنے والے اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں، ہمیں اس عدم توازن اور عدم مساوات پر بھی غور کرنا ہوگا اور عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے لیے مثبت اور ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔
اس ترقی یافتہ دور میں وسائل کی کثرت نے عالمی سطح پر اجناس کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔ انڈا، سبزی، غلہ اور دیگر ضروریات زندگی کی صلاحیت اور اس کے فروغ میں دو چند اضافہ ہوا ہے۔کاشتکاری کے وسائل کے فروغ نے زراعت میں کئی گنا اضافہ کیا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا قلت تغذیہ وخوراک کا شکار ہوکر ہلاکت وتباہی سے دوچا رہو، یہ چند امور ہیں جو غور طلب ہیں اور شاید یہی امور انسانی معیشت کی عدم برابری اور اس کے توازن کو تار تار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔n
(مضمون نگار دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں استاذ ہیں)
[email protected]